پاکستان میں مون سون کی تاریخی بارشوں اور سیلاب نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 30 ملین سے زیادہ افراد کو متاثر کیا ہے
رات بھر ہونے والی بارشوں کے بعد پہلے سے ہی سیلاب زدہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے، جبکہ اموت کی مجموعی تعداد 241 تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان میں مون سون کی تاریخی بارشوں اور سیلاب نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 30 ملین سے زیادہ افراد کو متاثر کیا ہے۔
مستونگ میں ایک بار پھر طوفانی بارش نے تباہی مچا دی، نشیبی علاقے ڈوب چکے ہیں، نظام زندگی مفلوج ہوچکا ہے۔
کاریزنوتھ میں حفاظتی بند ٹوٹ گیا ہے، آماچ ڈیم بھرنے سےاسپیل وے کھول دیئے گئے، جبکہ ڈیم کا پانی شمس آباد میں سڑکیں بہالے گیا۔
کلی ٹھل دریخان میں سیکڑوں مکانات تباہ ہوگئے ہیں۔ جھل مگسی میں بپھرے ریلے کے باعث درگاہ فتح پور شریف میں صوفی بزرگ کی سو سالہ قدیمی مسجد اور درگاہ سید عبدالنبی شاہ کا تین سوسالہ قدیم گنبد منہدم ہوگیا۔
قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، پیشن، قلات، مستونگ، جھل مگسی، لسبیلہ کے بیشرعلاقے ڈوبے ہوئے ہیں۔
کچے مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں اور ہزاروں مال مویشی بھی جان سے گئے۔
بلوچستان بھرمیں متعدد علاقوں میں بجلی وگیس کی فراہمی معطل ہے۔ کوئٹہ آنے والی ٹرانسمیشن لائن کے دو پول پانی میں بہہ گئے ہیں۔
بولان میں لوہے کا بنا ہوا تاریخی پنجرہ پل بھی سیلابی ریلے کی نذر ہوگیا۔ صوبے کا رابطہ دیگر علاقوں سے کٹ کر رہ گیا، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان، فورٹ منڈو، ڈیرہ غازی خان، بولان کےدرمیان سڑکیں تاحال بند ہیں۔
انفراسٹرکچر کی تباہی اور مواصلاتی رابطوں میں خرابی نے علاقے میں امدادی اور بچاؤ سرگرمیوں میں حکام کو درپیش مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
پاکستان نے طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کے دوران عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے، جس میں 900 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
بلوچستان میں فضائی، سڑک اور ریلوے نیٹ ورک پہلے ہی معطل ہیں، جس سے صوبے کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہے۔
پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ٹوئٹر پر کہا کہ، “بلوچستان آپٹیکل فائبر کیبل میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے کوئٹہ اور صوبے کے باقی اہم شہروں میں وائس اور ڈیٹا سروسز متاثر ہوئی ہیں۔”
ادارے نے مزید کہا کہ اس بے مثال صورتِ حال کو حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ بولان پاس میں کولپور اور مچھ کے درمیان ایک بڑا ریلوے پل بہہ گیا، جس نے جنوب مغربی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو غیر معینہ مدت کے لیے ملک کے دیگر حصوں سے الگ کر دیا ہے۔
بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے والی چاروں شاہراہیں تباہ شدہ پلوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک صوبے میں 235 سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں افراد اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کے روز عوام پر زور دیا کہ وہ “ہوشیار رہیں” کیونکہ ملک سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں آنے والے سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے سجاول میں سیلاب کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ “ہمیں چوکنا رہنا ہوگا کہ یہ سیلاب ہماری زراعت کو نقصان نہ پہنچائے۔”
“ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ ہم مل کر اس چیلنج سے کامیابی کے ساتھ نکل سکتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت سندھ کی طرح دوسرے صوبوں کو بھی گرانٹ فراہم کرے گی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت والے صوبے کو وفاقی حکومت سے 15 ارب روپے ملیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے اور وفاقی حکومت مل کر فیصلہ کریں گے کہ سروے کے بعد وہ کس قسم کا تعاون کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ لوگ آگے آئیں اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کریں۔
وزیر اعظم شہباز نے کہا کہ ہمیں اللہ سے معافی اور اس سے برکت مانگنی چاہیے۔
عمران خان کل ٹیلی تھون کریں گے
تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کل (اتوار) امدادی سرگرمیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے ٹیلی تھون کریں گے۔
‘کوئی بھی حکومت خود اس صورتِ حال سے نمٹ نہیں سکتی’
شدید بارشوں اور سیلاب نے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 1000 سے زائد افراد ہلاک اور 30 ملین متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آگے آئیں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو امدادی سرگرمیوں میں پاکستانیوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے اپنی تاریخ میں اس طرح کے سیلاب اور شدید بارشیں نہیں دیکھی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بارشیں ملکی تاریخ کی اوسط بارش سے 180 فیصد زیادہ تھیں۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کوئی بھی حکومت خود اس صورتحال سے نمٹ نہیں سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم شہباز نے مختلف علاقوں میں امدادی پروگراموں کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔
پاک فوج کی ریلیف ہیلپ لائن قائم
مسلح افواج کے میڈیا ونگ نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان آرمی نے ‘آرمی فلڈ ریلیف ہیلپ لائن’ قائم کی ہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ ملک بھر میں قائم کہ مختلف فارمیشنز کی ہیلپ ڈیسک تک یونیورسل ایکسس نمبر (UAN) کے زریعے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کے پاس امدادی رقوم بھیجنے کا کوئی اکاؤنٹ نہیں، فوج سے متعلق گردش کرنے والے اکاؤنٹس جعلی ہیں۔
“سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے امدادی رقم صرف حکومتی اکاؤنٹ میں بھیجی جا سکتی ہے۔”
آئی ایس پی آر کے مطابق، سیلاب زدہ علاقوں میں فوج کے 50 کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور پاک فوج کے تمام افسران نے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے لیے عطیہ کر دی ہے۔ مزید یہ کہ اس نے اپنا تین ماہ کا راشن بھی عطیہ کیا ہے۔
صوبوں میں فوج طلب
وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 (مسلح افواج کے افعال) کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان کے آفت زدہ علاقوں میں ریلیف اور ریسکیو آپریشنز کے لیے صوبائی حکومتوں کی مدد کے لیے فوجی دستوں کی تعیناتی کا اختیار دیا ہے۔
جمعہ کو وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ فوجی دستوں کو تمام صوبائی حکومتوں کی درخواستوں کے مطابق تعینات کیا جا رہا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ “فوج کے دستوں/اثاثوں کی صحیح تعداد، تعیناتی کی تاریخ اور علاقے کا تعین متعلقہ صوبائی حکومتیں/انتظامیہ ملٹری آپریشن جنرل ہیڈ کوارٹرز کی مشاورت سے کریں گی۔”
** 26 اگست تک نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری نقصانات کی تفصیل**
حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر ملک بھر کے 66 اضلاع کو ‘آفت زدہ’ قرار دیا گیا ہے، جن میں بلوچستان کے 31، سندھ کے 23، خیبر پختونخواہ (کے پی) کے نو اور پنجاب کے تین اضلاع شامل ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق، 14 جون سے اب تک دو لاکھ اٹھارہ ہزار سے زیادہ گھر تباہ ہو چکے ہیں اور مزید چار لاکھ 52 ہزار کو نقصان پہنچا ہے۔
اب تک سات لاکھ 93 ہزار 900 سے زیادہ مویشی جو کہ بہت سے خاندانوں کی روزی اور معاش کا ایک اہم ذریعہ ہیں، مر چکے ہیں۔ جن میں سے 63 فیصد بلوچستان اور 25 فیصد پنجاب میں ہیں۔
تقریباً دو ملین ایکڑ فصلیں اور باغات بھی متاثر ہوئے ہیں جن میں بلوچستان میں کم از کم 304,000 ایکڑ، پنجاب میں 178,000 ایکڑ اور سندھ میں تقریباً 1.54 ملین ایکڑ رقبہ شامل ہے۔
بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان نے انسانی صورتِ حال کو مزید خراب کر دیا ہے، کیونکہ تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں اور 145 پلوں کی جزوی یا مکمل تباہی لوگوں کے محفوظ علاقوں کی طرف منتقل ہونے ، صحت کی دیکھ بھال یا دیگر اہم خدمات تک رسائی کے لیے سفر کرنے کی صلاحیت کو ختم کردیا ہے۔ ضرورت مند لوگوں تک امداد کی فراہمی اور انٹرنیٹ کی بندش کی بھی اطلاع ملی ہے۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے عارضی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایمرجنسی کی وجہ سے کم از کم 17 ہزار 566 اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔
سندھ میں 15 ہزار 842، بلوچستان میں 544 اور پنجاب میں ایک ہزار 180 اسکول شامل ہیں۔
مزید برآں، مبینہ طور پر کم از کم 5 ہزار 492 اسکولوں کو بے گھر لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے 10 اضلاع میں کیے گئے ایک ریپڈ نیڈز اسسمنٹ (RNA) سے معلوم ہوا کہ 977 کلاس رومز مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں (خضدار میں 304، لسبیلہ میں 193 اور جھل مگسی میں 167) جبکہ 975 کلاس رومز کو معمولی نقصان پہنچا۔
پانچ سو ستتر اسکولوں کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا جن میں قلعہ سیف اللہ میں 254، جھل مگسی میں 105 اور لسبیلہ کے 84 ساکول شامل ہیں۔
بارشوں سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے شدید سیلاب
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے جمعہ کو کہا کہ مون سون کی “غیر معمولی” طوفانی بارشیں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ سیلاب کی وجہ بنی ہیں، جس نے جنوبی خطے کے بہت سے حصے کو زیرِ آب لے لیا۔
گزشتہ روز رکن قومی اسمبلی نزہت پٹھان کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس سے خطاب میں شیری رحمان نے کہا کہ صورتِ حال “خراب” ہے، کیونکہ بہت سے سیلاب زدہ علاقوں میں بنا کسی وقفے کے 1,100 ملی میٹر تک بارشیں ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ مواصلاتی رابطہ بھی ختم ہو چکا ہے، “ہمارے ہیلی کاپٹر متاثرہ علاقوں تک پہنچ رہے ہیں لیکن وہ ناموافق موسمی حالات کی وجہ سے واپس آ رہے ہیں۔”
وفاقی وزیر نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں اب بھی بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور حکومت کو اس بارے میں “کوئی اندازہ نہیں تھا” کہ جمع پانی کو کہاں سے نکالا جائے۔