بائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر سوال کیوں اٹھایا خطے کا وہ سفارتی منظر نامہ جس نے امریکی صدر کو جنجھلا دیا

پاکستانی رہنما حال ہی میں امریکی سرزمین کا دورہ کرکے آئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری اقوام متحدہ اجلاس کے لیے گذشتہ ماہ نیویارک میں تھے۔ اس اجلاس کے بعد بلاول نے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کیا اور امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات کی۔

رواں ماہ کے شروع میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی امریکہ کا دورہ کیا اور امریکی وزیردفاع لائیڈ آسٹن سے ملے۔

ان اہم دوروں کے بعد امریکی صدر بائیڈن کی طرف سے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے پر شکوک کا اظہار کرنا اور پاکستان کو دنیا کے خطرناک ممالک میں سے ایک قرار دینا کئی لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہے۔

تاہم پاکستانی حکام کے لیے یہ بیان غیرمتوقع نہیں اور بلاول بھٹو زرداری نے ایک حد تک اس کی پیش گوئی کر دی تھی۔

پاکستان کو پہلے سے خدشہ تھا

بلاول نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران ہی فارن پالیسی میگزین کے نمائندے روی اگروال سے بات چیت کی تھی۔ اس بات چیت میں ان کا سب سے اہم جملہ یہ تھا کہ پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان ”جیو پولیٹکل فٹ بال“ نہیں بننا چاہتا بلکہ ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان نے 70 کی رہائی سے چین اور امریکہ کے درمیان پل کا کردار ہی ادا کیا ہے۔ 1971 میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کا انتظام پاکستان نے ہی کیا تھا۔

یہ امریکہ اور چین کے درمیان پہلا اعلیٰ سطح کا رابطہ تھا۔ رات کے تاریکی میں ایک پاکستانی سفارتکار نے کسنجر کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچایا جہاں سے وہ بیجنگ روانہ ہوگے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے بغیر کسنجر کا یہ دورہ ممکن ہی نہ ہوتا۔

اب یہی پاکستانی دفترخارجہ امریکی سفیر کو طلب کرکے بائیڈن کے بیان پر ڈی مارش جاری کی تیاری کر رہا ہے۔

ڈی مارش ایک سفارتی نوٹ ہوتا ہے جسے جاری کرنے والا ملک کسی معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتا ہے تاہم اسے احتجاج کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

بائیڈن کے بیان سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بلاول بھٹو کی جانب سے امریکہ اور چین کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو رہی۔

حالات یہاں تک کیوں پہنچے

امریکی صدر کی پاکستان پر چڑھائی کا سبب نہ تو عمران خان حکومت کے اقدامات ہیں اور نہ ہی یہ موجودہ حکومت کا کیا دھرا ہے۔

اگرچہ عمران خان دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ امریکہ نے ”سازش“ کے ذریعے ان کی حکومت گرائی تاکہ وہ اپنی مرضی کے لوگوں کو پاکستان میں حکمراں بنا سکے۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا رہا ہے کہ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ امریکہ کی غلامی کے بجائے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو خود مختار بنا رہے تھے۔

بائیڈن کے تازہ بیان سے تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود خارجہ پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔

یہ بیان ایک خاص پس منظر میں دیا گیا ہے۔

اپنے قیام کے بعد کئی دہائیوں تک جب پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی رہا، ہمارا پڑوسی ملک بھارت ”غیرجانبدار تحریک“ (Non-aligned Movement) کا سربراہ بنا رہا اور اس ناتے نئی دہلی نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔

پاکستان غیرجانبدار تحریک کا 1979 سے رکن ہے لیکن عملی طور پر یہ امریکہ کے ساتھ چلتا رہا۔ البتہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی اور امریکہ کی طرف غیرمعمولی جھکاؤ کم کرلیا گیا۔

مشرف دور میں 2007 میں روسی وزیراعظم میخائل فرادکوف کے دورہ پاکستان کو اسلام آباد کی پالیسی میں تبدیلی کا اہم اشارہ سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ 38 برس میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے روسی وزیراعظم تھے۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی دور میں روس سے رابطے بہتر ہوئے جب کہ نواز شریف دور میں پاکستان اور روس کے تعلقات اتنے بہتر ہوئے کہ ہتھیاروں کے سودے ہونے لگے۔ پاکستان نے روس سے ایم آئی 35 گن شپ ہیلی کاپٹر حاصل کیے۔ چار ہیلی کاپٹروں کی پہلی کھیپ اگست 2017 میں موصول ہوئی۔

روس کے حوالے سے صرف پاکستان ہی پالیسی ہی تبدیل نہیں ہوئی۔ 1971 میں جب کسنجری بیجنگ کے خفیہ دورے پر گئے چین اور روس کے درمیان مخاصمت پائی جاتی تھی۔ سرد جنگ کا زمانہ تھا اور امریکہ کو چین میں اپنا ایک اور اتحادی دکھائی دے رہا تھا۔ 1976 میں ماوزے تنگ کی موت کے بعد بیجنگ اور ماسکو قریب آنے لگے۔ 2001 میں ان ملکوں میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ ہوگیا۔

چین اور روس کی قربت نے امریکہ کے لیے خدشات یوں بڑھا دیئے کہ سوویت یونین ٹوٹنے کے باوجود جہاں روس ایک اہم عسکری طاقت ہے چین کے پاس معاشی وسائل موجود ہیں۔

امریکہ نے خطے میں طاقت کا توازن بدلنے کے لیے بھارت کے سر پر ہاتھ رکھ لیا۔ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ امریکہ نے بھارت کو چار رکنی کواڈ اتحاد میں شامل کیا۔ بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بھی بنایا گیا تاکہ بھارتی ایٹمی پروگرام بغیر کسی روک ٹوک کے آگے بڑھ سکے۔

امریکہ کو دھچکا

روس اور چین کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ دوستی گاڑھنے کے بعد امریکہ مطئمن بیٹھا تھا لیکن رواں برس فروری میں اسے شدید دھچکا لگا۔

روس نے یوکرائن پر حملہ کردیا۔ امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک نے روسی حملے کی مذمت کے لیے قرارداد پیش کی۔ پاکستان، بھارت اور چین نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا۔

روس کے ساتھ قریبی تعلقات کے باعث چین کی جانب سے قرارداد کی حمایت نہ کرنا قابل فہم تھا۔ پاکستان کے ووٹ نہ دینے کے حوالے سے کم ازکم پاکستان میں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ عمران خان کا فیصلہ تھا۔

لیکن بھارت کی حمایت حاصل نہ ہونا امریکہ کے لیے پریشانی کا سبب تھا۔ نئی دہلی کی بے وفائی نے واشنگٹن کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ ان کے تعلقات میں سردمہری اب عیاں ہو چکی ہے۔

بھارت سے مایوس ہونے کے بعد واشنگٹن نے پاکستان کی طرف دوبارہ پیار کی پینگیں بڑھائیں۔

ستمبر میں امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کے پرزے خریدنے کیلئے امداد دینے کا اعلان کیا۔ بھارت نے اعتراض اٹھایا تو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے یہ اعتراض مسترد کردیا۔

اکتوبر کے شروع میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا۔ آزاد کشمیر کو عام طور پر دوسرے ممالک اور بین الاقوامی خبر رساں ادارے ”پاکستان کا زیرانتظام کشمیر“ لکھتے ہیں۔ لیکن بلوم کے دورے کے بعد جاری ایک بیان میں امریکی سفارتخانے نے اس خطے کو ”آزاد جموں کشمیر“ لکھا۔ اس پر بھی بھارت نے احتجاج بھی کیا۔

پاکستان پر اس طرح کی سفارتی نوازشات کے بعد امریکہ نے شاید اسلام آباد سے کچھ توقعات وابستہ کرلی تھیں۔

رواں ماہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ماسکو کے خلاف ایکک اورقرارداد پیش کی گئی۔ روس نے یوکرین کے کچھ خطوں کا اپنے ساتھ الحاق کر لیا ہے۔ جنرل اسمبلی کی قراداد روس کے اس اقدام کی مذمت میں تھی۔

امریکہ کو اگر توقع تھی کہ پاکستان اس قرارداد کی حمایت کرے گا تو وہ امید خاک میں مل گئی۔ پاکستان نے ایک بار پھر روس مخالف قرارداد کی حمایت نہیں کی۔

بائیڈن کی جنجھلاہٹ

جو بائیڈن نے جمعہ 13 اکتوبر کو لاس اینجلس میں اپنی نجی رہائش گاہ پر ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک عشایئے میں بات چیت کی۔

یہ سرکاری تقریب نہیں تھی لیکن وائٹ ہاؤس نے اس کا ٹرانسکرپٹ جاری کیا ہے۔

بائیڈن روسی صدر پوتن کی جانب سے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی پر خاصے جنجھلائے ہوئے تھے۔

ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار وہ چھوٹے ایٹم بم ہیں جو میدان جنگ میں محدود اثرات کے ساتھ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا محور بھی یہی ٹیکٹیکل ہتھیار ہیں۔

بائیڈن نے کہاکہ کیوبن میزائل بحران کے بعد کیا کوئی شخص سوچ بھی سکتا تھا کہ ایک دن ایک روسی رہنما ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے گا جن سے صرف تین چارہزار افراد ہلاک ہوسکتے ہیں اور وہ اپنی بات منوانے کیلئے اسے نکتے کو استعمال کرے گا۔

بائیڈن نے کہا کہ کیا کسی نے سوچا تھا کہ ہم ایسی صورت حال میں ہوں گے جہاں روس، بھارت اور پاکستان کے تناظر میں چین اپنے کردار سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوگا۔

بائیڈن نے کہا کہ وہ اوباما دور میں امریکہ کے نائب صدر کے طور پر موجودہ چینی صدر شی جنگ پنگ کے ساتھ طویل وقت مذاکرات میں گزار چکے ہیں۔

”یہ (صدر شی) وہ شخص ہے جو جانتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے لیکن اسے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ ہم اس سے کیسے نمٹیں؟ ہم روس کے حالات کے تناظر میں اس سے کیسے نمٹیں؟ اور وہ جسے میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان۔ ایٹمی ہتھیار بغیر کسی قاعدے کے۔“

بائیڈن نے کہاکہ بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن امریکہ کے پاس موقع ہے کہ وہ اس صدی کے دوسرے حصے میں حالات کو تبدیل کردے۔

امریکی صدر کہاکہ منتخب ہونے کے بعد وہ جی 7 ممالک کے اجلاس میں کیے گئے اور وہاں پر کہا کہ ”امریکہ واپس آگیا ہے“۔ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ کب تک کے لیے۔

وائٹ ہاؤس کا ٹرانسکرپٹ 79 سالہ امریکی صدر کی جھنجلاہٹ کی واضح عکاسی کرتا ہے۔

لیکن کیا امریکی دفترخارجہ ان کے غصے کو پاکستان کیخلاف اقدام میں تبدیل کرے گا یا پاکستانی سفارتکار واشنگٹن میں بیٹھے اپنے ہم منصبوں کو قائل کر لیں گے۔ یہ وقت بتائے گا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں