عدالتی احکامات کے باوجود ایف آئی اے کی ”پیکا ایکٹ“کے تحت 580سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کے خلاف کاروائی‘ مقدمات درج

ذاتی معلومات جاری کرنے کے خلاف متعدد افراد کا عدالتوں سے رجوع کرنے کا اعلان ‘سینکڑوں اکاﺅنٹس بیرون ممالک سے آپریٹ کیئے جارہے ہیں.ایف آئی اے ذرائع

وفاقی تحقیقاتی ادارے” ایف آئی اے“ کی جانب سے سوشل میڈیا کے حوالے سے صحافیوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف ”پیکا “قانون کے تحت پانچ افراد سے زیادہ افراد کی بنائی جانے والی فہرست پر کئی متاثرین نے عدالتوں سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے فہرست میں کئی نامور صحافی اور اینکربھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے ایف آئی اے کی جانب سے ”لیک“کی جانے والی فہرست میں ان کے مکمل کوائف‘ذاتی معلومات اورخاندان کی معلومات شامل کرکے ان کی ذاتی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا گیا ہے ان کے مکمل کوائف‘ذاتی وخاندانی معلومات کو پبلک کرکے ان کے بنک اکاﺅنٹس‘دیگر معاشی مفادات کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے .

ایف آئی اے کی لیک ہونے والی فہرست پچھلے کئی ہفتوں سے مخصوص حلقوں میں گردش کررہی تھی مگر امریکی نشریاتی ادارے ”وائس آف امریکا“نے اس پر رپورٹ شائع کرکے اسے عام شہریوں تک پہنچا دیا ہے رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے حکام نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے سے متعلق مہم میں ملوث سوشل میڈیا کے کل 580 اکاﺅنٹس کی چھان بین کی گئی جن میں سے شناخت شدہ اکاﺅنٹس کی تعداد 168 اور جعلی اکاﺅنٹس کی تعداد 238 ہے جب کہ 123 اکاﺅنٹس کی شناخت نادرا کے سپرد کر دی گئی ہے دستاویز کے مطابق 18 اکاﺅنٹس بھارت اور 33 اکاﺅنٹس دیگر ممالک سے چلائے جا رہے ہیں ان 580 سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کے ذریعے لسبیلہ حادثے پر حساس اداروں کے خلاف دو ہزار 350 منفی پوسٹس کی گئیں.

ایف آئی اے کی دستاویزمیں ذاتی کوائف کے ساتھ اکاﺅنٹ چلانے والی کی تصاویر‘سکرین شارٹس اورمختلف پوسٹس پر کمنٹس میں درج کیئے گئے ہیں ان دستاویزات میں ایسے ادارے اور افراد کے نام بھی شامل کردیئے گئے ہیں جن کی پوسٹوں پر مختلف لوگوں نے کمنٹس کیئے ہیں آدھے سے زیادہ اکاﺅنٹس کے خلاف کاروائی مسلم لیگ نون کی قیادت مریم نواز‘نوازشریف اور وزیراعظم شہبازشریف کے بارے میں پوسٹیں شیئرکرنے پر کی جارہی ہے.

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں