واشنگٹن امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ افغان عوام کے مستقبل اور افغانستان میں استحکام پر پاکستان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، خطے میں سکیورٹی کی صورتحال اور چیلنجز پر پاکستان سے مستقل بات ہوتی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ میں بدھ 12 اکتوبر کو ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلیٰ عسکری حکام کے ہمراہ امریکا کا دورہ کیا ہے۔ کیا آپ ہمارے ساتھ اس دورے کی تفصیلات شیئر کرسکتے ہیں کہ اس دورے کے دوران کن کن امور پر گفتگو ہوئی، خاص کر افغانستان سے متعلق کیا کیا امور زیر غور آئے؟
جس پر ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا کہ پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ امریکا کے موقع پر ان کی ڈپٹی سیکریٹری وینڈی شرمین سے ملاقات ہوئی، پاکستان ہمارا دیرینہ دوست اور ساتھی ہے۔ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
اور یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان میں استحکام، افغان عوام کی حفاظت اور خطے کو درپیش چیلنجز اور استحکام پاکستانی ہم منصب کے ساتھ زیر غور آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ہم ان امور سمیت دیگر اہم موضوعات پر بھی باقاعدہ سے ملاقات اور بات چیت کرتے رہتے ہیں تاہم قوائد کے مطابق ان ملاقاتوں کی مزید تفصیلات شیئر نہیں کی جاسکتیں۔
پریس بریفنگ میں ایک اور صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بہت سی میڈیا رپورٹس ہیں جن میں جنرل باجوہ کے دورہ واشنگٹن ڈی سی کے وقت پر سوالیہ نشان ہیں کیونکہ چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر ان کی دوسری تین سالہ مدت اگلے چند ہفتوں میں ختم ہونے والی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے امریکی انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کی صورتحال اور نئے آرمی چیف کی ممکنہ تقرری پر تبادلہ خیال کیا۔ کیا آپ اس قسم کی کسی بات کی تردید یا تصدیق کریں گے؟
جس پر ترجمان نے کہا کہ ملاقات سے متعلق کو تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کی جا سکتی تھیں، وہ ہم نے کردی ہیں، اس کے علاوہ جنرل باجوہ کے دورہ امریکا اور ملاقات سے متعلق مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں۔
امریکا پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعاون کی قدرکرتا ہے، پاکستان اور امریکا کے متعدد معاملات میں مفادات یکساں ہیں، پاکستان میں جمہوری طریقے سے منتخب سویلین حکومت ہے، پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون جاری ہے، پاک امریکا تعاون اور مفادات سکیورٹی اورمعیشت پر ہیں۔
ایک صحافی نے یہ بھی سوال پوچھا کہ اقوام متحدہ کی ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے سیلاب زدگان اور بحالی کیلئے دی جانے والی 150 ملین کی امداد میں سے صرف 30 ملین امداد ہی متاثرین کو دی گئی ہے، اور یہ تمام رپورٹس پاکستان کے صوبہ سندھ سے آئی ہیں، جہاں امداد رقم میں کرپشن کی اطلاعات ہیں۔
کیا امریکا اس سلسلے میں کوئی اقدام اٹھائے گا؟ یا کوئی مکینزم یا مانینیٹرنگ موجود ہے جس سے اس امداد کی ترسیل کو شفاف طریقے سے حقدار تک پہنچایا جا سکے؟
اس پر نیڈ پرائس نے کہا کہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں کہیں بھی اگر امریکا کوئی امداد دیتا ہے تو اسے ہم بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، جہاں بھی امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالر لگائے جاتے ہیں اور یا فوری طور پر انسانی مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، جو کہ واضح طور پر پاکستان میں سیلاب کے ردعمل کے لحاظ سے ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم اس امداد کی نگرانی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان میں موجود عملے کے ذریعے اسے شفاف بناتے ہیں، عملہ فیلڈ میں ہمارے پروگراموں کی نگرانی کے لیے باقاعدہ دورے کرتے ہیں۔
ہمارے پاس ایک ڈارٹ ہے جسے ڈیزاسٹر اسسٹنس ریسپانس ٹیم کہتے ہیں اور ان کے ارکان صوبہ سندھ میں بلوچستان کے 10 سے زیادہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع کا سفر کرتے ہیں۔ اور وہ ابھی بھی ایسا کر رہے ہیں۔ گزشتہ مہینے کے وسط میں بھی ستمبر 14 اور 27 ستمبر کے درمیان عملے نے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا- نہ صرف سیلاب زدگان کی امداد بلکہ بحالی کے کاموں کا بھی جائزہ لیا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدہ رپورٹس بھی مرتب کی جاتی ہیں۔
پریس بریفنگ کے دوران میڈیا نمائندے کی جانب سے سوال پوچھا گیا کہ کچھ عرصہ قبل امریکی پاکستانیوں کے وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیلی قیادت سے ملاقات کی، اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ جس پر ترجمان نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس پر اسرائیل اور پاکستانی قیادت اور حکام بہتر طور پر جواب دے سکتے ہیں، تاہم امریکی انتظامیہ کی کوشش ہے کہ اسرائیل اور دیگر عرب و مسلم ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرے۔