دو صدی پرانے لوک گیت کی دھن میں درد، احتجاج اور محبت شامل ہیں
انیسویں صدی میں اٹلی کی کسان عورتوں نے اپنے برے حالات کار پر ایک گیت بنایا۔ اگلی صدی کے وسط میں یعنی 1945 کے آس پاس یہ لوک گیت مسولینی کے فاشزم کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گیا۔ اب کوئی پون صدی مزید گزرنے پر ایران کے حجاب مخالف مظاہروں میں اسی گیت کا فارسی ورژن خواتین کی آواز بن چکا ہے۔
اطالوی زبان میں ”بیلاچاؤ“ کا مطلب ہے ”الوداع میری جان“۔ لیکن اٹلی کے اصل پسند منظر اور ایران میں بھی اس کے اندر محبت، درد اور غصے کی ایسی آمیزش ہے کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ایران میں 16 ستمبر کو گشت ارشاد کے اہلکاروں کی تحویل میں 22 سالہ مہاسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے پرتشدد مظاہرے جاری ہیں جن میں 60 کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ خواتین کھلے عام اپنے حجاب اتار کر جلا رہی ہیں۔ لوگ سڑکوں پر پولیس سے لڑ رہے ہیں۔
گشت ارشاد ایران میں لوگوں سے اخلاقیات کی پابندی کرانے والی پولیس ہے اور مہاسا امینی کو اس کے اہلکاروں نے درست طریقے سے حجاب نہ اوڑھنے پر تہران میں گرفتار کیا تھا۔ مبینہ تشدد سے مہاسا امینی کومہ میں چلی گئی اور پھر دم توڑ گئی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے مطابق گشت ارشاد کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ صرف مہاسا امینی ہی نہیں بنی بلکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اس پولیس نے پٹرولنگ میں اضافہ کرتے ہوئے خواتین کو حجاب نہ پہننے پر نشانہ بنایا۔
اقوام متحدہ نے 20 ستمبر کو ایک بیان میں کہا کہ تصدیق شدہ ویڈیوز میں واضح ہے کہ خواتین کو حجاب ٹھیک طریقے سے نہ پہننے پر منہ پر تھپڑ مارے گئے، ڈنڈوں سے مارا گیا اور زبردستی پولیس وین میں پھینکا گیا۔
ان واقعات کے خلاف احتجاج میں صرف جلاؤ گھیراؤ ہی شامل نہیں بلکہ بیلا چاؤ کا گیت بھی ہے۔
پہلے کچھ مردو خواتین نے یہ گیت ایک مظاہرے میں گایا اب ایرانی خواتین اس کا فارسی ورژن گا کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع کر رہی ہیں۔
ان خواتین نے حجاب نہیں پہنے اور ان میں سے کچھ مکمل مغربی لباس میں ہیں۔
Hundreds singing Bella Ciao, which was adopted as an anthem of the 2009 protests in Iran on demonstration in London today in solidarity with #Mahsa_Amini #SayHerName #IranProtests2022 pic.twitter.com/e55ariYCtu
— MENA Solidarity (@MENAsolidarity) September 24, 2022
بیلاچاؤ کا مکمل فارسی ورژن گلوکارہ یاشگین کیانی نے پیش کیا ہے جو پہلے ہی دختر شیرازی جیسے گیتوں کی بدولت شہرت حاصل کر چکی ہیں۔
بیلاچاؤ فارسی ورژن کی کیا اہمیت ہے یہ جاننے کے لیے پہلے اصل اطالوی لوک گیت کو سمجھنا ہوگا۔
اطالوی بیلا چاؤ
انیسویں صدی کے آخری عشروں میں دیہی اٹلی کی محنت کش خواتین کو دھان کی فصلوں میں بطور مزدور کام کرنا پڑتا تھا۔ کھیتوں کے مالک سخت گیری کے لیے مشہور تھے۔ ان محنت کش خواتین نے اپنے جذبات کو اس گیت کی شکل دی۔
گیت میں صرف الفاط نہیں بلکہ ان کی تال بہت اہم ہے۔ یہ quadruple meter میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصل دھن کے ساتھ اس گیت کا ترجمہ ایک مختلف کام ہے۔ تاہم اسے اردو کے قالب میں اسے کچھ یوں ڈھالا جا سکتا ہے۔
صبح جب میں اٹھتی ہوں، تو کہنا پڑتا ہے
الوداع میری جاں، الوداع میری جاں، الوداع، الوداع
صبح جب میں اٹھتی ہوں، تو جانا پڑتا ہے
دھان کے کھیتوں میں
مکوڑوں اور مچھروں میں
الوداع میری جان ، الوداع میری جاں، الوداع، الوداع
مکوڑوں اور مچھروں میں ، مشقت کرتی ہوں
چھڑی اٹھائے، وہ مالک کھڑا ہے
الوداع میری جاں، الواداع میری جاں، الوداع، الوداع
چھڑی اٹھائے، وہ مالک کھڑا ہے
کام کے بوجھ تلے، ہماری کمر مڑ گئی ہے
او میرے خدا، یہ عذاب ہے کیا
الوداع میری جاں، الوداع میری جاں، الوداع، الوداع
او میرے خدا، یہ عذاب ہے کیا
اس گیت کے آخری بند میں یہ محنت کش عورت کہتی ہے کہ ایک دن آئے گا جب وہ اور اس جیسی خواتین آزاد فضا میں کام کریں گی۔
اس گیت میں خواتین جسے الوداع کہہ رہی ہیں وہ ان کی صحت، جوانی اور زندگی ہے۔
جب مسولینی کا دور آیا تو اس گیت کے بول بدل گئے۔ دھن وہی رہی۔ اب اس گیت میں جابر لوگ جارح فوجی تھے۔ گیت میں ہیرو پارتیانو (partigiano) ہیں جو فاشزم کیخلف لڑنے والے حریت پسندوں کا نام تھا۔ گیت گانے والے کی طرف سے پارتیانو کو کہا جاتا ہے کہ وہ اسے بھی ساتھ لے جائیں۔
یہ نیا لوک گیت جس میں آزادی کیلئے مرنے کی بات کی گئی ہے دنیا بھر میں حریت پسندی کا استعارہ بن گیا۔
منی ہائسٹ سے تعلق
بیلا چاو کو کچھ عرصہ قبل از سرنو مقبولیت ہسپانوی زبان میں نشر ھونے والے ایک ٹی وی شو ”لا کاسا دے پیپل“ سے ملی۔
نیٹ فلیکس نے اس ڈرامے کا انگریزی ورژن منی ہائیسٹ کے نام سے بنایا۔
چونکہ ڈرامے کے مرکزی کردار یہ گیت گاتے دکھائی دیتے ہیں لہذا یہ ایک بار پھر مشہور ہوگیا۔
بیلا چاؤ فارسی ورژن
یاشگین کیانی نے پیر کے روز بیلا چاؤ فارسی ورژن ایک ویڈیو یوٹیوب پر شائع کی اور اب کئی دیگر خواتین بھی یہ گیت گا رہی ہیں۔
ایران میں اس گیت کی اصل اطالوی استائی ”بیلاچاؤ“ کو برقراررکھا گیا ہے۔
از گلوی تو (تمہارے حلق سے)
به صدای ما (ہماری صداؤں تک)
بیلا چاؤ، بیلا چاؤ، بیلا چاؤ، چاؤ، چاؤ
میپریم از خواب یک شبه مهتاب، (ہم ایک شب مہتاب بیداار ہوتے ہیں)
شخصی صدا می زند ”هی همه بشریت“ (کوئی پکارتا ہے اے بنی آدم)
یا هامه با هام، یا هامه تنها (یا تو ہم سب یا پھر جدا جدا)
ما که بیداریم تا فردا (بیدار ہو جائیں کل تک)
خاکه در گندم، خیلی خیابونه (گرد و غبار گندم ابھی گلیوں میں ہے)
خوشه ای خشم منوتو تشنی بارونه (خوشه خشم میرا و تو بارش کیلئے تشنه
حقه ما کم نیست (حق ہمارا اس سے کم نہیں)
ذانویه غم نیست (غم کے مارے جھکتے ہم نہیں)
قلب ما که دور از هم نیست (دل ہمارے اک دوسرے سے دور نہیں)
دنیاای تعار، این یه آغاذه (اس سیاہ دنیا میں یہ ایک نیا آغآز ہے)
پنجره تا رویا بازه (خوابوں کی کھڑکی اب کھلی ہے)
کئی دیگر خواتین نے بھی ”بیلا چاؤ“ کو اپنے انداز میں گا کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔ ایک بہت مقبول ہونے والی ویڈیوز میں خواتین نے پرزور انداز میں احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
Iranian women — no Hijab — sing the Farsi version of Bella Ciao, the anti-fascist anthem of the Italian resistance during WW II pic.twitter.com/FZXfszMRf1
— Frida Ghitis (@FridaGhitis) September 28, 2022
مزاحمتی گیت دنیا کے باقی حصوں میں
یہ پہلا موقع نہیں کہ اٹلی سے باہر اس گیت کو احتجاج کرنے والوں نے گایا ہوں۔
2020 میں جب بھارتی پنجاب کے کسان مودی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے تو بیلاؤ چاؤ کا ایک ترمیم شدہ ورژن مقبول ہوا۔ تاہم اس گیت میں بیلاچاؤ کو ”واپس جاؤ“ سے تبدیل کر دیا گیا۔
رواں برس کے شروع میں یوکرائن پر روس نے حملہ کیا تو یوکرائن کی خواتین فوجی مورچوں میں یہ گیت گا کر اپنا اور دوسروں کا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔