بھارت میں مسلمان گھریلو ملازمین نوکری کھونے کے ڈر سے ہندو نام استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے۔
مُنّی بیگم دس سال کی تھیں جب ان کی والدہ نے ان کی کنیت (والد کا نام) چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس وقت ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟
منی اکثر اپنی والدہ اور دادی کے ساتھ ان کے کام پر جاتی تھیں، جو ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں صفائی ستھرائی، کھانا پکانے اور نگہداشت کی متعدد ملازمتوں میں مصروف تھیں۔
لیکن اب وہ اپنی عمر کی 50ویں دہائی کے اواخر میں ہیں، جب انہوں نے خود گھریلو کام کرنا شروع کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے خاندان کی تمام خواتین کو زندہ رہنے کے لیے اپنے کام کی جگہوں پر ہندو ناموں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
منی بیگم نے الجزیرہ کو بتایا کہ، “وہ ہمیں ملازمت نہیں دیں گے، وہ ہم مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے ہمارے منہ پر کہا کہ ہم برے لوگ ہیں۔ لہٰذا، مُنّی ایک ایسا نام تھا جو (ہندو اور مسلم) دونوں برادریوں میں استعمال کیا جاسکتا تھا۔” منی بیگم نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیوہ ماں ساڑھی اور بندی پہن کر کام پر جاتی تھیں جو روایتی طور پر ہندو ثقافت سے وابستہ ہیں۔
“ میری بہن عید الفطر پر بھی شبہات سے بچنے کے لیے کام کرتی تھی۔“
گھریلو ملازمہ کے طور پر 40 سال سے زیادہ کام کرنے والی منی بیگم نے کہا کہ انہیں بہت سے ہندو اور جین گھرانوں میں امتیازی سلوک اور توہین کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ان کی مسلم شناخت کی وجہ سے بہت سے گھروں میں کام سے نکال دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ “مجھے اپنے بچوں کی پرورش خود کرنی تھی، میرے شوہر نے مجھے بالکل سپورٹ نہیں کیا۔ یہ بہت مشکل تھا۔”
ہندوستان میں مسلمان 1.5 بلین آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہیں ، جبکہ گھریلو ملازمین کی تعداد نامعلوم ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ اگرچہ سرکاری اعدادوشمار یہ تعداد 50 لاکھ بتاتے ہیں، لیکن بھارت میں 20 سے 80 ملین گھریلو ملازمین ہو سکتے ہیں۔
ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں دس میں سے نو مسلم مزدور غیر رسمی معیشت میں اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق انیشی ایٹو فار واٹ ورکس ٹو ایڈوانس ویمن اینڈ گرلز ان دی اکانومی (IWWAGE) اور انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹڈیز ٹرسٹ (ISST) کے 2020 کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی دوسرے مذہب کی خواتین سے زیادہ مسلم خواتین غیر رسمی شعبے میں مصروف ہیں۔
ہندوستان کے گھریلو ملازمین کو عام طور پر ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور یہاں تک کہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آجر اکثر ملازمین کی کچن، واش رومز، ایلیویٹرز اور یہاں تک کہ ان کی عبادت گاہوں تک رسائی کو محدود کرتے ہیں۔ ملازموں کے کھانے کے لیے الگ برتن ہوتے ہیں۔
نئی دہلی میں شہری مہیلا کامگار یونین (اربن ڈومیسٹک ورکرز یونین) کی کارکن اور جنرل سکریٹری انیتا کپور نے کہتی ہیں کہ مسلم ملازمین کو اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے مزید پسماندگی کا سامنا ہے۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ “بہت سے ملازمین کو نوکری حاصل کرنے اور مزید امتیازی سلوک سے بچنے کے لیے اپنا نام اور شناخت چھپانا پڑتا ہے۔”
“اور یہ صرف ملازمین ہی نہیں ہے جن کو اپنا نام تبدیل کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کے بچے بھی جو اکثر اپنی ماؤں کے ساتھ کام پر جاتے ہیں، اور ان کے شوہر جو کبھی کبھی ایک ہی گھرانوں میں گاڑی چلانے جیسی نوکری کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے پورے خاندان کو اس جدوجہد سے گزرنا پڑتا ہے۔”
منی بیگم کی بیٹی شاہانہ پروین، جو ایک گھریلو ملازمہ بھی ہیں، نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد سنایا جب انہوں نے غلطی سے اپنی خالہ کے کام کی جگہ پر روایتی عربی سلام “السلام علیکم” استعمال کیا۔
پینتیس سالہ شاہانہ نے ہنستے ہوئے کہ “میری خالہ نے فوراً مجھے ڈانٹا اور کہا، ‘چپ رہو! نمستے کہا کرو’۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے انہیں اس دن مشکل میں ڈال دیا تھا۔”
پروین نے ایک ہندو سے شادی کی اور اپنا نام تبدیل کر کے سیما رکھ لیا۔
“ذاتی طور پر، میں نے کبھی بھی اپنی ماں اور خالہ کو درپیش مسائل کا سامنا نہیں کیا۔ شادی سے پہلے بھی مجھے کبھی اپنی شناخت نہیں چھپانی پڑی۔ (خوش قسمتی سے) میں نے بہت سے اچھے خاندانوں، ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لیے بھی کام کیا ہے۔
شبانہ رایل کے لیے اگرچہ حالات اتنے سازگار نہیں رہے۔ 28 سالہ نوجوان خاتون کو حال ہی میں اس امتیازی سلوک کی وجہ سے کام چھوڑنا پڑا۔
“شبانہ بتاتی ہیں کہ، “میں جہاں بھی جاتی ہوں، وہ مجھ سے میری شناخت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ میں کھانا بنانا جانتی ہوں لیکن وہ مجھے کھانا پکانے کا کام نہیں دیں گے کیونکہ میں مسلمان ہوں۔ ابھی حال ہی میں، کسی نے مجھ سے کہا، ’ہم مسلمانوں کو ملازمت نہیں دیتے۔ وہ ہمارے لیے اچھوت ہیں۔ اور برہمن (ہندو مذہب میں سب سے اونچی ذات)، وہ ہمیں اپنے گھروں میں داخل نہیں ہونے دیتے۔”
رایل کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور وہ عالمی وبا کورونا وائرس کے بعد مشکل سے کام کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔
“ایک ملازمت کے دوران میرا آجر بہت اچھا تھا لیکن اس کے سسر میری ملازمت پر اس سے لڑتے تھے۔ وہ مجھے کہتا کہ ان کے کمرے کی صفائی نہ کرو اور نہ ہی ان کے لیے کھانا پکانا۔ وہ مجھے میری گوشت کھانے کی عادت پر طعنہ دیتا۔ آخرکار ایک دن میں نے ان سے پوچھا، ’’کیا ہندو گوشت نہیں کھاتے؟”
اس سال کے شروع میں لیڈ بائی فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق، جس کا مقصد افرادی قوت میں ہندوستان کی مسلم خواتین کی نمائندگی کو بڑھانا ہے، کہتی ہے کہ غیر رسمی شعبے میں ایک ہندو خاتون کو اس کے مساوی طور پر اہل مسلم ہم منصب کے مقابلے میں مثبت جواب ملنے کا امکان دو گنا زیادہ ہے۔
‘Hiring Bias: Employment for Muslim Women at Entry-level Roals’ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھرتی کے عمل میں مسلم خواتین کے خلاف براہ راست تعصب ہے۔
نئی دہلی میں پلیسمنٹ ایجنسی چلانے والے ششی چودھری نے الجزیرہ کو بتایا، “میرے تمام مؤکلوں میں سے صرف ایک نے ایک مسلمان گھریلو ملازم کو رکھا ہے۔”
“بہت ساری مسلمان لڑکیاں اور لڑکے مجھے کام کے لیے کہتے ہیں۔ لیکن میں کیا کروں؟ کوئی بھی ان کی خدمات حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ میں بہت بے بس محسوس کرتا ہوں۔ کبھی کبھی مجھے ان کے حالات پر رونا آتا ہے۔”
نئی دہلی کے ایک رہائشی پریجیت پانڈے کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان ملازمین کو ملازمت دینے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ انہیں خاندانی پوجا گھر کے آس پاس نہیں چاہتے۔
“یہ اس جگہ کے تقدس کے بارے میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے کو معلوم نہ ہو کہ ہم کیا کرنے اور نہ کرنے کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ ہمارے مذہبی عقائد اور عقیدے سے بھی وابستہ نہیں ہیں۔”
نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرنے والی ایک نوجوان خاتون نے بتایا کہ والدین کے دباؤ کی وجہ سے وہ اپنی ہی کمیونٹی سے ملازمین کو ملازمت پر رکھنے پر مجبور ہوئیں۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ “میری کوئی ترجیح نہیں ہے لیکن میرے والدین اور رشتہ دار اکثر کسی خاص مذہب یا کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے ہیں۔”
روز روز کی تذلیل سے تنگ آکر رایل نے نوکری چھوڑ دی۔
“میں یہ مزید نہیں کر سکتی۔ یہ بہت عجیب، بہت برا لگتا ہے۔”
ان کے شوہر، جو ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں ، اب گھر کے واحد کفیل ہیں۔
سماجی کارکن کپور بتاتی ہیں کہ کئی مسلمان ملازمین نے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران اپنے بچوں کے ہندو نام رکھنا شروع کر دیے ہیں تاکہ انہیں اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا، “یا تو وہ اپنے بچوں کو ایک ایسا نام دیں گے جو دونوں برادریوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے حنا، یا وہ اپنے بچوں کو دو نام دیں گے جیسے خوش نوما اور خوشی، ایک سرکاری دستاویزات کے لیے اور دوسرا روزمرہ کے استعمال کے لیے۔”
“کبھی کبھی آجر خود ہی کسی کارکن کا نام بدل دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ انہیں ایسے مضحکہ خیز نام دیتے ہیں یہ ذلت آمیز ہے۔”
عالمی وبا سے مشکلات میں مزید اضافہ
تمام ملازمین کا کہنا ہے کہ وبائی مرض نے ان کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ طویل لاک ڈاؤن کے دوران، ملک بھر میں گھریلو ملازمین نے ملازمتیں کھو دیں، اس طرح وہ قرضوں کے شیطانی چکر میں پڑ گئے اور کھانے کو دسترخوان پر رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ محنت کے مضبوط قوانین اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے جامع فلاحی پروگراموں کے بغیر بہت سے لوگوں کو غیر منفعتی یا چند خیر خواہ آجروں کی مدد پر منحصر چھوڑ دیا گیا تھا۔
رخسانہ شیخ، جو گزشتہ 20 سالوں سے گھریلو ملازمہ ہیں، کہتی ہیں، “دو قسم کے آجر مجھے ہر ماہ 1,000 (بھارتی) روپے دیتے تھے۔ اس نے (کپور اور دیگر ملازمین کی) یونینوں کی مدد سے ہمیں زندہ رہنے میں مدد کی۔
عام طور پر، وہ ماہانہ تقریباً 10,000 روپے کمانے کے لیے چار ملازمتیں کرتی تھیں، لیکن اب وہ صرف دو کام کر رہی ہیں۔
تاہم وہ اس وقت اپنے بچوں کی تعلیم کو لے کر سب سے زیادہ فکر مند ہیں۔
“وبائی کورونا وائرس کے بعد سب کچھ آن لائن ہوگیا۔ میرے تین بچے ہیں اور صرف ایک فون ہے۔ میں ایک معمولی فون پر ان کی کلاسوں کا انتظام کیسے کروں؟ اور اتفاق سے، اگر انٹرنیٹ کام کرنا بند کر دیتا ہے یا لمٹ ختم ہو جاتی ہے، تو مطالعہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔”
اگرچہ دہلی میں اب زیادہ تر اسکول دوبارہ کھل چکے ہیں، شیخ کہتی ہیں کہ انہیں اسکول اور کوچنگ کے اخراجات برداشت کرنا اب بھی مشکل ہو رہا ہے۔
کام پر رخسانہ “پنکی” کا استعمال کرتی ہیں، جو ایک مذہب سے ماورا علمی نام جو ان کی دادی نے انہیں پیدا ہونے سے پہلے ہی دیا تھا۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا، “سب مجھے پنکی کہتے ہیں۔ لیکن وہ میری مسلم شناخت سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ آخر کار ان کے پاس میری شناختی دستاویزات موجود ہیں۔”
“میں نے کبھی بھی اپنی شناخت کے بارے میں جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی کبھی چھپایا۔” منی بیگم کہتی ہیں کہ اپنی مسلم شناخت کو ثابت کرنے میں انہیں برسوں لگے لیکن وہ نوجوان نسل کے لیے پرامید ہیں۔