برطانیہ کی وزارت عظمٰی کا مقابلہ،لزٹرس برطانیہ کی نئی وزیر اعظم منتخب

برطانیہ کی وزارت عظمٰی کی دوڑ کیلئے 11 امیدوار سامنے آئے تھے

لندن, برطانیہ کی وزارت عظمٰی کا مقابلہ،لزٹرس نے رشی سونک کو شکست دے دی،لزٹرس برطانیہ کی نئی وزیر اعظم منتخب ہو گئی ہیں۔ برطانیہ کی وزارت عظمٰی کی دوڑ کیلئے 11 امیدوار سامنے آئے تھے،لزٹرس پہلی بار 2010 میں نار فوک میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں،نئی منتخب وزیر اعظم لزٹرس کیمرون،ٹریزامے اور بورس جانسن کی کابینہ میں ذمہ داریاں نبھا چکی ہیں۔

ٹوری ارکان پارلیمنٹ کے ووٹنگ کے مختلف مراحل کے بعد لزٹرس اور رشی سونک وزارت عظمی کے میدان میں رہ گئے تھے۔لزٹرس نے چند ماہ میں ٹیکس میں کمی کا حکومتی منصوبہ بھی پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا،برطانیہ میں 23 جنوری 2025 کے متوقع انتخابات کے سبب وزیر اعظم کو ڈاوننگ اسٹریٹ میں 870 دن ملیں گ،لزٹرس برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی نئی سربراہ بھی منتخب ہو گئی ہیں۔

خیال رہے کہ بورس جانسن نےاسکینڈلز سامنے آنے پر 7 جولائی کو وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ برطانیہ کی حکمراں کنزرویٹیو پارٹی کے اراکین پارلیمان نے بورس جانسن کا جانشین منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالے، جس میں سابق وزیر خزانہ رشی سوناک اور وزیر خارجہ لز ٹروس بالترتیب 137 اور 113 ووٹ لے کر پہلے اور دوسرے نمبر پر آئے۔

وزیر تجارت پینی مورڈینٹ 105 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہیں اور وہ پارٹی کے نئے سربراہ کے انتخاب کی دوڑ سے باہر ہوگئیں۔ اب پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا اور فاتح کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر کے ساتھ ہی جانسن کے جانشین کے طورپر برطانیہ کا نیا وزیر اعظم بھی ہو گا۔ کووڈ 19 کے دوران لاک ڈاون کی خلاف ورزیوں کے علاوہ کئی دیگر اسکینڈلز کی وجہ سے جانسن کو اپنے عہدے سے مجبوراً استعفی دینا پڑا تھا۔

ووٹنگ سے قبل جانسن برطانوی وزیر اعظم کے طور پر آخری مرتبہ پارلیمان کے ایوان میں حاضر ہوئے اور انہوں نے ایک بحث میں بھی حصہ لیا۔ بعد میں انہوں نے ووٹنگ کے معاملے پر ہنستے ہوئے کہا،”میں نے اس پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔” بورس جانسن پر کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر کے عہدے سے استعفی دینے کے لیے دباو ڈالنے کے خاطر درجنوں سرکاری حکام نے اپنے اپنے استعفے سونپ دیے تھے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں