چیری کے ذائقے والا قدرے نرم مشروب لوگوں کے لیے اچھے متبادل میں تبدیل ہوگیا۔
غزہ میں فلسطینیوں پر انسانیت سوز اسرائیلی مظالم میں معاون کا کردار ادا کرنے والے دنیا کے معروف ترین کاروباری اداروں کی مصنوعات کا مسلم دنیا میں کم و بیش ایک سال سے بہت بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کیا جاتا رہا ہے۔
اب چند ایک یورپی ملکوں میں بھی بڑے برانڈز کو نظر انداز کرکے نئے اور مقامی برانڈز کو تیزی سے قبول کیا جارہا ہے۔
برطانیہ میں غزہ کولا بھی تیزی سے مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ وسطی لندن کے علاقے ہولبورن میں فاسٹ فوڈ چَین حِبا ایکسپریس گاہکوں سے بھڑی ہوئی ہے۔ یہ اتوار کی صبح کا معاملہ ہے۔ لوگ چھٹی کے دن کا مزا لینے کے لیے گھر سے باہر کھانے کو ترجیح دیتےہیں۔
حِبا ایکسپریس کے اوپر پیلیسٹائن ہاؤس ہے۔ یہاں فلسطینی آتے ہیں اور مل بیٹھتے ہیں۔ یہ مکان روایتی عربی انداز کا حامل ہے۔ 6 منزلہ پیلیسٹائن ہاؤس اُسامہ قاشو چلاتا ہے۔ وہ 2012 میں شروع ہونے والی حِبا ایکسپریس کا شریک بانی ہے۔ 2020 تک وہ اس ریسٹورنٹ سے وابستہ تھا۔
حِبا ایکسپریس میں روایتی فلسطینی اور لبنانی ڈشیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہاں معروف اور مقبول ڈشوں کے ساتھ اب مغربی برانڈز کے مشروبات کے بجائے مقامی طور پر اجرا کے بعد مقبولیت حاصل کرنے والا کولا غزہ پیش کیا جاتا ہے۔ کولا غزہ دراصل چیری کے ذائقے والا سوڈا ہے۔ کین پر انگریزی کے علاوہ عربی میں بھی کولا غزہ لکھا ہوا ہے۔
53 سالہ ننکے بریٹ کا کہنا ہے کہ معروف کولاز کے مقابلے میں کولا غزہ قدرے نرم ہے اور معدے کے لیے زیادہ گرانی کا باعث بھی نہیں بنتا۔ اِسے پی کر طبیعت ذرا سی بھی بوجھل محسوس نہیں ہوتی۔ بہت سے فلسطینی اور دیگر عرب افراد اِسے فریڈم کولا بھی قرار دیتے ہیں۔