لبنان میں اسرائیلی حملے، زخمی فلسطینی بچوں کا دوہرا المیہ
ظریفہ نوفل کی سات سالہ بیٹی حلیمہ ابو یاسین ان فلسطینی بچوں میں شامل ہیں جنہیں فلسطینی نژاد برطانوی سرجن، ڈاکٹر غسان ابو ستہ کے ایک فلاحی پروگرام کے تحت اسی سال علاج کے لیے غزہ سے لبنان منتقل کیا گیا تھا۔
تاہم ان بچوں کو لبنان منتقل کیے جانے کے چند ماہ بعد ہی لبنان بھی جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔
نوفل نے بتایا کہ ان کے بچے غزہ میں اپنے گھر سے باہر برتنوں میں پانی جمع کر رہے تھے جب میزائل حملہ ہوا۔ نوفل نے فوری باہر جاکر دیکھا تو اپنی چھوٹی بیٹی حلیمہ کو شدید زخمی حالت میں سڑک پر بے ہوش پایا۔
نوفل کا بیٹا بھی اس حملے میں شدید زخمی ہوا، وہ بے ہوش تھا تاہم اسے فوری طبی امداد کے ذریعے ہوش میں لایا گیا لیکن ہسپتال پہنچنے پر نوفل کو بیٹی کی ہلاکت کی خبر ملی۔
تاہم جب حلیمہ کی تدفین کی تیاری کی جا رہی تھی تو اس کے چچا کو حلیمہ کے جسم میں کچھ حرکت محسوس ہوئی۔
الاقصٰی ہسپتال کے حکام سے اس بیان کی تصدیق کے لیے رابطہ نہیں کیا جا سکا۔ تاہم، ڈاکٹر ابو ستہ، جو جنگ کے دوران غزہ کے مختلف ہسپتالوں میں کام کر چکے ہیں، نے بتایا کہ فضائی حملوں کے بعد جب زخمیوں کو بڑی تعداد میں اسپتال لایا جاتا ہے تو عملے کی پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ زخمیوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔
اس لئے ایمبولینس کا عملہ فوراً ان لوگوں کو مردہ خانہ لے جاتا ہے جنہیں وہ مردہ سمجھتے ہیں۔
نوفل کی بیٹی حلیمہ کی حالت بہت نازک تھی۔ ابتدائی طور پر نوفل خود اسے آکسیجن فراہم کرنے کے لیے ہاتھ سے آکسیجن پمپ کرتی رہیں تاکہ وہ سانس لے سکے۔ ایک ہفتے کے بعد، حلیمہ نے خود بخود سانس لینا شروع کیا۔ آخرکار وہ ہوش میں آ گئی۔
تاہم، حلیمہ کے سر کی چوٹ اب بھی کھلی ہوئی تھی اور اس کے دماغ میں انفیکشن پھیل چکا تھا۔
غزہ سے بیروت تک جنگ نے پیچھا نہیں چھوڑا
بیروت میں واقع امریکی یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں حلیمہ کے سر کی سرجری کی گئی جو کہ کامیاب رہی۔
نوفل کا کہنا ہے کہ حلیمہ کو سرجری کے بعد بھی یادداشت کے کچھ مسائل پیش آئے، مگر تھیراپی کی مدد سے اس کی حالت میں بہتری آئی اور وہ دوبارہ زندگی کی جانب لوٹنے لگی۔
ستمبر کے وسط میں اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی، جس میں لبنان کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے کیے گئے۔
ان حملوں میں بیروت کے جنوبی مضافات اور شہر کے مرکز میں کچھ اہم مقامات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
بچوں نے ایک مرتبہ پھر خود کو جنگی حالات کے مطابق ڈھالنا شروع کردیا۔ انہوں نے دھماکوں کے اثرات سے بچنے کے لیے شیشے کے دروازے کھلے رکھنا شروع کردیے اور کھڑکیوں سے دور ہوٹل کے مرکز میں قائم کمرے میں سونا شروع کردیا۔
نوفل نے بتایا کہ مختلف تنظیموں نے ان کے خاندان کو لبنان سے نکال کر کسی دوسرے ملک میں ان کی بیٹی کا علاج جاری رکھنے کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔
نوفل کہتی ہیں کہ اگر لبنان کے لوگوں پر مشکل وقت آتا ہے تو وہ غزہ کے لوگوں کے لیے بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔
پانچ سالہ آدم افانہ ایک دھماکے میں شدید زخمی جبکہ ان کے والد اور بہن ہلاک ہو گئے تھے۔ آدم کو بھی بازو کی سرجری کے لیے لبنان منتقل کیا گیا تھا۔ آدم کے چچا نے بتایا کہ آدم فضائی حملوں کی آواز سے شدید خوفزدہ ہو جاتا ہے اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کہیں بھی چلا جائے جنگ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
بچے جنگوں سے سب سے زیادہ متاثر
بیروت پہنچنے کے بعد، آدم کی ہڈیوں میں موجود انفیکشن کو صاف کیا گیا، اس کے بعد اس کی نیورو سرجری اور باقاعدگی سے فزیوتھیراپی بھی کی گئی۔ ان تمام کوششوں کے نتیجے میں اب اس کے ہاتھوں کی حرکت میں کچھ بہتری آئی ہے۔
لیکن اس کے ہاتھ کو مکمل حرکت میں لانے کے لیے ایک سرجری اب بھی مؤخر ہے۔
ابو ستہ نے بتایا کہ دنیا بھر میں اس قسم کی سرجری میں مہارت رکھنے والے ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے، اور وہ توقع کر رہے تھے کہ ان میں سے کوئی ایک ماہر سرجن لبنان آکر آدَم کا علاج کرے گا۔
تاہم، لبنان میں جاری کشیدگی کی وجہ سے ان ماہرین کا سفر مؤخر ہو گیا ہے۔
ابو ستہ نے جب لبنان میں اس پروگرام کا آغاز کیا تھا، تو ان کا مقصد تھا کہ وہ کسی ایک وقت میں غزہ سے لائے جانے والے 50 بچوں کا علاج کریں۔ تاہم اب مزید مریضوں کو لبنان لانا ممکن نہیں رہا، اس لیے ان کی ٹیم نے اپنی تمام تر توجہ اور وسائل لبنانی بچوں کے علاج پر مرکوز کر دی ہیں۔