ایک سویڈش ماہر لسانیات ہیڈ وگ اسکر گارڈ پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے جرمنی آئیں۔ جرمنی میں آئے انہیں صرف چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت پڑی۔ تاہم ان کا جو تجربہ ہوا، وہ جرمنی میں کئی سالوں کے رہنے اور کام کرنے کے بعد بھی، اب بھی ان کے ذہن سے نہیں نکل رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں،”میرے ڈاکٹر نے چند ماہرین سے رجوع کرنے کو کہا۔ جو بھی جرمن زبان مجھے تھوڑی بہت آتی تھی اس کے ساتھ میں نے گوگل ٹرانسلیٹ کا استعمال کرتے ہوئے ان سے رابطہ کیا۔ میں نے ان ڈاکٹروں سے پوچھا کہ کیا وہ مجھ سے انگریزی میں بات کر سکتے ہیں۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی ترجمان کی سروس دستیاب ہے، تو بتایا گیا کہ یہ بھی دستیاب نہیں ہے۔
ایک ماہر نے مجھے مدد کے لیے اپنے کسی دوست یا خاندان کے کسی فرد کو لانے کی بات کہی، جو ممکن نہیں تھا: یہاں نہ تو میرا کوئی خاندان ہے اور نہ ہی کوئی دوست ہے جسے میں اپنے ایک خاص مرض پر بات چیت کے لیے طبی بحث میں شامل کر سکتی تھی۔”
جرمنی میں یکم اپریل سے بھنگ کا استعمال قانونی ہو گا
وہ کہتی ہیں کہ سب سے عجیب تاثر انہیں یہ ملا کہ ڈاکٹروں کو یہ تک نہیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کا مریض ان کی زبان میں بات نہ کر سکے تو انہیں اس موقع پر کیا کرنا چاہیے۔
تو کیا، “میں اپنے شہر میں ایسی پہلی تارک وطن ہوں، جس نے جرمن بولنے کی اعلیٰ مہارت کے بغیر ہی طبی طلاح و مشورہ کے عمل سے گزرنا ہے؟ ایسا یقیناً نہیں ہے؟”
جرمنی کے وفاقی شماریاتی دفتر نے سن 2023 میں پایا کہ جرمنی میں رہنے والے تقریباً 15 فیصد لوگ بنیادی طور پر گھر میں جرمن نہیں بولتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی، جیسا کہ اسکرگارڈ یہ دریافت کرنے میں قدرے پریشان ہوئی تھیں، اس طرح کا نظام بہت کم موجود ہے کہ جب صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے افراد غیر جرمن مریضوں سے ملتے ہیں، تو انہیں کیا کرنا چاہیے اور اس کے لیے کون سے نظام موجود ہیں۔
بالآخر اسکرگارڈ کو مختلف زبانیں بولنے والے ڈاکٹروں کا ایک مفید ڈیٹا ملا، تاہم ان کا خود کا ڈاکٹر اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
اسکرگارڈ کہتی ہیں، “یہ کافی تکلیف دہ اور خوفناک تھا اور مجھے امید ہے کہ ایسا کسی اور کے ساتھ نہیں ہو گا۔ میں دوسرے ایسے کیسوں کے بارے میں جانتی ہوں، جنہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈاکٹر بھی اپنے کمفرٹ زون اور صلاحیتوں سے باہر دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے پریشانی اور دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔”
جرمن سکولوں میں طلبہ کو مفت لنچ کی فراہمی کا مطالبہ
دوسرے ممالک کے محکمہ صحت میں بھی ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے
مئی میں جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹروں کی کانفرنس نے دو تجاویز کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس میں مفت پیشہ ورانہ ترجمے کی خدمات کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس بنیاد پر کہ اس طرح کی خدمات کی کمی ان کے لیے اپنے کام کرنا مشکل بنا رہی ہے۔
اس میں کہا گیا تھا، “ایسا لگتا ہے کہ جرمن ڈاکٹروں کی اکثریت اس بات سے متفق ہو گی۔”
اس تجویز کے مسودے میں لکھا تھا، “ہر روز ہم ڈاکٹر ایسے مریضوں کا علاج کرتے ہیں جن کی مادری زبان جرمن نہیں ہے۔ اس صورت میں بات چیت صرف خاندان یا طبی پیشے سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں، نرسنگ اسٹاف یا سروس کے اہلکاروں کی مدد سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
تاہم غیر پیشہ ورانہ زبان کی یہ ثالثی نہ صرف مترجم کے لیے، بلکہ طبی ٹیم اور مریضوں کے لیے بھی ایک بوجھ ہے، اور یہ تشخیص یا مناسب علاج کو بھی پیچیدہ بناتی ہے۔”
مانع حمل ذرائع: جرمن عوام کی اکثریت ’مرد کے لیے گولی‘ کی حامی
ایسی خدمات کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ دوسرے یورپی ممالک میں بھی یہ مریض کی بجائے صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر منحصر ہے کہ وہ ایک عام زبان کا انتظام کریں۔
اسکرگارڈ کے آبائی وطن سویڈن میں بھی اس حوالے سے ایک مرکزی نظام موجود ہے اور اگر ان کی کسی غیر سویڈش بولنے والے مریض سے ملاقات کا وقت ہو، تو ڈاکٹروں کو اجازت ہے کہ وہ کسی مترجم کے ساتھ کانفرنس کال بک کر سکیں۔
ناروے میں بھی مریضوں کو اپنی صحت اور علاج کے بارے میں اس زبان میں معلومات حاصل کرنے کا قانونی حق حاصل ہے، جو وہ سمجھتے ہوں، جبکہ آئرش ہیلتھ سروس نے اس طرح کی ہدایات جاری کی ہیں کہ ڈاکٹروں کو ترجمان کیسے تلاش کرنا چاہیے۔
تاہم جرمنی میں اس معاملے پر ڈاکٹروں اور مریضوں کو اکثر الجھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور جہاں تک وہ بعض اوقات خیراتی اداروں اور رضاکاروں پر انحصار کرتے ہوئے کر سکتے ہیں تو وہ یہ کام کرتے بھی ہیں۔
میڈیکل سیٹنگز میں کمیونیکیشن سے تعلق رکھنے والی پولینا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “ہم خود کو ترجمہ کے خلا کو بھرنے والے کے طور پر دیکھتے ہیں جو اصل میں پیشہ ورانہ طور پر کیا جانا چاہیے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خلا موجود ہے، کیونکہ نہ تو ریاست یا ہیلتھ انشورنس کمپنیاں یا ڈاکٹروں کے دفاتر یا ہسپتال اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔”
ہونا اچھا ہے یا ہونے کی ضرورت ہے؟
چانسلر اولاف شولس کی مخلوط حکومت بھی اس مسئلے سے آگاہ ہے اور اس نے اپنے سن 2021 کے اتحادی معاہدے میں وعدہ کیا تھا کہ وہ قومی ریاستی صحت کے بیمہ کنندگان کو ترجمے کی خدمات کی لاگت کو پورا کرنے کو کہے گی۔
جرمن وزارت صحت کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو تصدیق کی کہ حقیقتاً اب بھی یہ اس منصوبے کا حصہ ہے اور اتحادی جماعتیں اسے صحت کی دیکھ بھال کو مضبوط بنانے کے ایکٹ میں متعارف کرانے کی سفارش کریں گی۔
لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومتی اتحاد میں اختلافات کی وجہ سے اس کو روک دیا گیا ہے۔
بچوں کی صحت کا مسئلہ، کھانے کے اشتہارات پر پابندی کا منصوبہ
مینز یونیورسٹی میں بین الثقافتی مواصلات کے پروفیسر برنڈ میئر نے کئی سالوں تک زبان، انضمام اور ثقافت کے مسائل کا مطالعہ کیا ہے اور سرکاری اداروں میں زبان پر سفارشات کی ایک کتاب مشترکہ طور پر لکھی ہے۔
انہیں پچھلے سال بنڈسٹاگ میں مدعو کیا گیا تھا تاکہ یہ وضاحت کی جاسکے کہ یہ اقدام اتنا ضروری کیوں ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سیاسی سطح پر اس پرعمل درآمد ایک مسئلہ ہے۔” انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر اسے بجٹ پر بحث کے دوران ہی روک دیا گیا تھا۔
جرمنی ایک کثیر لسانی معاشرہ ہے
جیسا کہ اسکرگارڈ اور دیگر نے نوٹ کیا ہے کہ جرمنی ہنر مند بیرونی مزدوروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جرمن اکنامک انسٹیٹیوٹ کے مطابق سن 2023 میں تقریباً 570,000 ملازمتیں خالی پڑی رہیں کیونکہ ماہر ورکرز نہیں تھے اور اس کی وجہ سے بہت سی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا تھا۔ اب حکومت نے بیرونی ماہرین کی بھرتی کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے۔
جرمنی میں مزید کئی ادویات کی قلت
اسکرگارڈ کہتی ہیں، “یقیناً، کچھ لوگ کہیں گے کہ جرمن سرکاری زبان ہے اور جو بھی یہاں رہتا ہے اسے صرف اسے سیکھنا ہو گا۔
میں اتفاق کرتی ہوں، یہ سو فیصد سچ ہے۔ لیکن جب کوئی ایک مہینے میں کینیا سے آتا ہے اور پھر اس کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے، تو کیا ان کی اس وقت تک دیکھ بھال نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ وہ جرمن انٹینسیو کورس نہیں کر لیتے؟ میرے خیال میں اگر جرمنی ایک ایسا ملک بننا چاہتا ہے جو ہنر مند تارکین وطن کو راغب کرتا ہے، تو ترجمہ کرنے ‘ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کا ہونا اچھا ہو سکتا نہیں، بلکہ اس ہونے کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جرمنی ایک کثیر لسانی معاشرہ ہے تاہم بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جو شاذ ونادر ہی جرمن زبان بولتے ہوئے اپنی زندگیاں بسر کر تے ہیں۔
ماہر لسانیات ہونے کے ناطے، اسکرگارڈ نے یہاں رہتے ہوئے چار سالوں میں جرمن زبان سیکھی، لیکن جس یونیورسٹی میں وہ کام کرتی ہے، اپنی کام کی زندگی میں بھی وہ اسے شاذ ونادر ہی استعمال کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں “آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ برا ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے، اور میں اس نقطہ نظر کو پوری طرح سمجھ سکتی ہوں۔” تاہم وہ کہتی ہیں کہ آپ کی چاہت اور جو ضروری ہے اس میں ہونا وہی چاہیے، جو حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔