انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور کارکنان نے ایرانی حکام سے اپیل کی ہے کہ جس خاتون کو یونیورسٹی کے اندر اپنے کپڑے اتار دینے کے بعد برہنہ حالت میں گرفتار کیا گیا تھا، انہیں رہا کر دیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں تہران کی اسلامی آزاد یونیورسٹی میں شعبہ سائنس اینڈ ریسرچ کے اندر ایک خاتون کو اپنے زیر جامہ میں سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا گیا تھا اور پھر انہیں فرش پر آرام سے چلتے ہوئے دکھایا گیا۔
اس حوالے سے ایک دوسری ویڈیو میں خاتون اپنا زیر جامہ اتارتی دکھائی دے رہی ہیں اور پھر اس کے فوری بعد سادہ لباس والے ایجنٹ انہیں زبردستی حراست میں لیتے ہیں اور گاڑی میں انہیں دھکیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آزاد یونیورسٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ خاتون “ذہنی عارضے” میں مبتلا تھیں اور اسی وجہ سے انہیں نفسیاتی ہسپتال” بھی لے جایا گیا تھا۔
رہائی کی اپیل
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان کی رہائی کی اپیل کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ “ان کی رہائی تک، حکام کو انہیں تشدد اور دیگر ناروا سلوک سے بچانا چاہیے، اور خاندان اور وکیل تک بھی رسائی کو یقینی بنانا چاہیے۔”
اس نے مزید کہا کہ “گرفتاری کے دوران ان کے خلاف مار پیٹ اور جنسی تشدد کے الزامات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بھی ضرورت ہے۔
ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔”
ایران کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ، مائی ساتو نے اس واقعے کی فوٹیج سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ کی اور لکھا کہ وہ “حکام کے رد عمل سمیت اس واقعے کی قریب سے نگرانی کریں گی۔”
ایران کی نوبل امن انعام یافتہ کارکن نرگس محمدی، جو اس وقت ایران میں قید ہیں، نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کیس کے حوالے سے سخت فکر مند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “خواتین خلاف ورزی کی قیمت ادا کرتی ہیں، لیکن ہم جبر کے سامنے جھکتے نہیں ہیں۔”
انہوں نے کہا، “یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والی طالبہ نے اپنے اس جسم کو، جو طویل عرصے سے جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے، مخالفت کی علامت میں تبدیل کر دیا۔ میں اس کی آزادی اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہوں۔
حجاب کے خلاف احتجاج یا ذہنی مریض
تہران کی آزاد یونیورسٹی نے مذکورہ خاتون کو “ذہنی عارضے” میں مبتلا قرار دیا، جبکہ ایک ایرانی میڈیا نے خاتون کے مبینہ شوہر کو یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ اس ویڈیو کو شیئر کرنے سے گریز کریں۔
تاہم سوشل میڈیا پر بہت سے ایرانیوں نے اس دعوے پر سوال اٹھائے ہیں اور خاتون کے ان اقدامات کو ایران میں “عورت، زندگی، آزادی” تحریک کے ایک حصے کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس مہم کے تحت بہت سی خواتین نے عوامی سطح پر حجاب سے متعلق ان قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے تحت انہیں اپنے بالوں کو ڈھانپنے اور لمبے، ڈھیلے ڈھالے لباس پہننے کی ضرورت ہوتی ہے۔
دو برس قبل یہ ملک گیر مہم ایک ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی “صحیح طریقے سے” حجاب نہ پہننے کی وجہ سے گرفتاری کے بعد پولیس کی حراست میں موت کے بعد شروع ہوئی تھی اور اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر 500 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
امیر کبیر نامی ایک ایرانی نیوز لیٹر ٹیلی گرام چینل، جو خود کو “ایرانی طلباء تحریک کی میڈیا” کے طور پر بیان کرتا ہے، اسی نے یونیورسٹی میں برہنہ ہونے کے واقعے کو سب سے پہلا شائع کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہیڈ اسکارف نہ پہننے پر یونیورسٹی میں پہلے خاتون کا سکیورٹی ایجنٹوں کے ساتھ جھگڑا ہوا، جس کے نتیجے میں ہاتھا پائی ہوئی اور اسی دوران خاتون نے بطور احتجاج اپنے کپڑے اتار پھینکے۔
امیر کبیر کے مطابق خاتون کا سر سادہ کپڑوں میں ملبوس ایجنٹوں کی گاڑی کے دروازے یا فریم سے اس وقت ٹکرا گیا جب انہیں حراست میں لیا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ سے انہیں خون بہنے لگا اور انہیں نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔
بعض اطلاعات کے مطابق خاتون آزاد یونیورسٹی میں اپنی کلاس میں داخل ہوئی اور طلباء کی فلم بندی شروع کر دی۔ جب لیکچرر نے اس پر اعتراض کیا تو وہ چلاتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں اور اس طرح جھگڑا شروع ہوا۔
اس دوران ایرانی میڈیا نے ایک ایسے شخص کی ویڈیو جاری کی جس کا چہرہ دھندلا تھا اور جس نے خود کو خاتون کا سابق شوہر ہونے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ ان کے دو بچوں کی خاطر اس ویڈیو کو شیئر نہ کریں ۔البتہ آزاد میڈیا ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔