پاکستان کا پہلا میڈیا امپیونٹی انڈیکس، جو صحافیوں کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر کیے گئے اقدامات کا جامع جائزہ فراہم کرتا ہے، عالمی یوم خاتمہ استثنیٰ کے موقع پرجاری کیا گیا۔ یہ رپورٹ 2024 میں پاکستانی صحافیوں کو درپیش سنگین اور جاری خطرات کو اجاگر کرتی ہے۔
انڈیکس میں صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے قانون سازی اور پالیسی اقدامات کا منظم جائزہ لیا گیا ہے۔ اگرچہ وفاقی اور سندھ کی صوبائی سطح پر قانون سازی میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، لیکن رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اہم حفاظتی کمیشن فعال نہ ہونے کی وجہ سے نفاذ میں ایک بڑا خلا موجود ہے، جیسا کہ فریڈم نیٹ ورک کے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے۔
اس ابتدائی رینکنگ میں سندھ نے صحافیوں کی حفاظت میں اپنی کوششوں کے لیے دس میں سے نو پوائنٹس حاصل کیے ہیں، جب کہ وفاقی حکومت آٹھ پوائنٹس کے ساتھ قریب رہی۔ اس کے برعکس، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے صرف دو دو پوائنٹس حاصل کیے ہیں، جو کہ بنیادی طور پر صحافیوں کی حفاظت کے قوانین کا مسودہ تیار کرنے اور ابتدائی مشاورت کے مرحلے میں محدود پیش رفت کو ظاہر کرتے ہیں۔ پنجاب سب سے نیچے رہا، جسے صرف ایک پوائنٹ دیا گیا۔
کلیدی نکات: 2024 میں صحافیوں کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات
فریڈم نیٹ ورک کی امپیونٹی رپورٹ 2024 میں میڈیا کارکنوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کا انکشاف کیا گیا ہے، جس میں چھ ہلاکتیں جن میں ایک یوٹیوبر بھی شامل ہےاور ملک بھر میں صحافیوں کے خلاف 57 خلاف ورزیوں کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ خطرات کے جواب میں، ضلعی اور اعلیٰ عدالتوں نے اکثر ریاستی اداروں کی جانب سے کی گئی قانونی کاروائیوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں کو ریلیف فراہم کیا۔
اگرچہ سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز بل (2021) اور وفاقی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ (2021) جیسے قوانین صحافیوں کی حفاظت کی سمت میں مثبت اقدام ہیں، تاہم نفاذ ایک مسئلہ رہا ہے۔ “ان قوانین کو نافذ کرنے کے لیے سیاسی عزم اور وسائل کی کمی نے صحافیوں کو غیر محفوظ چھوڑ دیا ہے،” فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہا۔
رپورٹ میں پاکستان بھر میں خلاف ورزیوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے: سندھ میں سب سے زیادہ واقعات رپورٹ کیے گئے، جو کہ 37 فیصد (57 میں سے 21 واقعات، جن میں تین قتل شامل ہیں) پر مشتمل ہے، اس کے بعد پنجاب 23 فیصد (13 واقعات) کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اسلام آباد 21 فیصد خلاف ورزیوں (12 واقعات) کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا، جب کہ خیبر پختونخوا میں سات واقعات (12 فیصد) رپورٹ ہوئے، اور بلوچستان سب سے کم 3.5 فیصد (دو واقعات) کے ساتھ رہا۔
ٹی وی صحافیوں نے ان واقعات میں سب سے زیادہ 53 فیصد کی نمائندگی کی، اس کے بعد پرنٹ میڈیا کے 35 فیصد، ڈیجیٹل صحافیوں کے 10 فیصد اور ریڈیو صحافیوں کے 2 فیصد واقعات شامل ہیں۔ ان خلاف ورزیوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں میں خواتین کا تناسب 9 فیصد تھا۔
رپورٹ میں ان خلاف ورزیوں کے پیچھے مبینہ طور پر ملوث افراد کی بھی نشاندہی کی گئی، جس میں 47 فیصد واقعات میں حکومتی اہلکار ذمہ دار تھے، اس کے بعد 12 فیصد میں سیاسی جماعتیں اور دیگر واقعات مختلف شناخت شدہ اور غیر شناخت شدہ افراد سے منسوب کیے گئے ہیں۔