امریکی انتخابات: کتنی لاگت آتی ہے اور ادائیگی کون کرتا ہے؟

امریکی صدر بننے کے لیے خطیر رقم درکار ہوتی ہے، مطلوبہ رقم حاصل کرنے کے لیے امیدوار مختلف ذرائع اپناتے ہیں۔
امیدوار صداراتی مہم کے لیے اپنا ذاتی پیسہ استعمال کر سکتے ہیں، یا پھر وہ نجی عطیہ دہندگان سے رقم اکٹھا کر سکتے ہیں۔
فنڈنگ کا ایک اور ذریعہ پولیٹیگل ایکشن کمیٹی گروپس ہیں جنہیں’پی اے سی ایس‘ اور ‘سپر پی اے سی ایس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ گروپ امیدواروں یا ان کی مہم کے لیے عطیات جمع کرتے ہیں۔

امیدواروں کے پاس آخری آپشن سرکاری فنڈنگ ہوتی ہے، مگر اس کے حصول کے لیے سخت شرائط ہوتی ہیں، جس کے باعث حالیہ کچھ انتخابات کے دوران یہ راستہ کسی نے نہیں اپنایا۔

کملا ہیرس نے کتنی رقم جمع کی ہے؟

واشنگٹن میں قائم امریکی انتخابات پر خرچ ہونے والی رقم پر نظر رکھنے والی غیر منافع بخش تنظیم اوپن سیکرٹس کے اعداد و شمار کے مطابق، ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس نے 30 ستمبر تک 906 ملین ڈالر سے زائد رقم اکٹھی کی

اس میں جو بائیڈن کی مہم کے لیے دیے گئے عطیات بھی شامل ہیں، لیکن جولائی میں بائیڈن کے دستبردار ہونے کے بعد فنڈ ریزنگ میں نمایاں اضافہ ہوا۔

اس کے علاوہ کملا ہیرس کی حمایت کے لیے بیرونی گروپس نے 22 ستمبر تک 359 ملین ڈالر تک فنڈنگ اکٹھی کی۔ اس کا مطلب ہے کہ اب تک 1.27 بلین ڈالر کی خطیر رقم کملا ہیرس کی مہم کے لیے جمع کی جا چکی ہے۔
اس میں سے 56 فیصد بڑی فنڈنگ کی صورت میں آیا جبکہ انفرادی طور پر جمع کی جانے والی فنڈنگ 44 فیصد ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کتنی رقم جمع کی ہے؟

ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حریف کے مقابلے میں کم رقم اکٹھی کی ہے۔ ان کی انتخابی مہم نے 367.1 ملین ڈالر جمع کیے ہیں، جو کملا ہیرس کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد کم ہے۔
بیرونی گروپس نے اس میں مزید 572.8 ملین ڈالر کا اضافہ کیا ہے، جس سے ٹرمپ کی کل فنڈنگ 940 ملین ڈالر ہو گئی ہے۔\ ٹرمپ بڑی حد تک امیر ترین افراد کی حمایت پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ ان کے دستیاب فنڈز کا 68 فیصد سے زائد امیر ترین لوگوں سے ملا ہے۔

کانگریس پر ہونے والے اخراجات
گزشتہ دو صدارتی انتخابات میں، ٹرمپ کے مخالفین نے ان سے زیادہ رقم خرچ کی۔ ٹرمپ نے 2016 میں ہلیری کلنٹن کو شکست دی، البتہ 2020 میں وہ جو بائیڈن سے ہار گئے۔

فریقین کے پیسے کے استعمال میں فرق اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انتخابات میں پیسے کی اہمیت تو ہے، لیکن صرف پیسہ ہی کامیابی کی ضمانت نہیں۔صدارتی انتخابات کے لیے کون عطیہ کر سکتا ہے؟
انتخابی مہمات کے لیے عطیات دینے کے حوالے سے فیڈرل الیکشن کمیشن نے سخت قوانین وضع کیے ہیں۔ صرف امریکی شہری یا گرین کارڈ ہولڈر ہی کسی پارٹی یا صدارتی امیدوار کو عطیہ کر سکتے ہیں۔

غیر ملکی شہریوں کو انتخابات میں کسی بھی قسم کا عطیہ دینے کی اجازت نہیں۔

انفرادی طور پر عطیہ دینے والوں کے لیے ایک مخصوص حد مقرر ہے کہ وہ کتنی رقم عطیہ کر سکتے ہیں۔

فیڈرل گورنمنٹ کنٹریکٹرز، کارپوریشنز، نیشنل بینک، لیبر یونینز اور غیر منافع بخش تنظیموں کو بھی وفاقی انتخابات میں امیدواروں یا جماعتوں کو براہ راست عطیہ دینے کی اجازت نہیں ہے۔

بڑے انتخابی عطیات کے مسائل
بہت سے ووٹرز کے دماغ انتخابی عطیات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ رقوم کے ذریعے سیاستدانوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف بدعنوانی پروان چڑھ سکتی ہے بلکہ جمہوریت پر لوگوں کا اعتماد بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

امریکی ارب پتی جیسے میلڈدا فرنچ گیٹس اور جارج سوروس نے کملا ہیرس کی حمایت کرنے والے گروپس کو لاکھوں ڈالر دیے۔

دوسری طرف، فنانشل ٹائمز کے مطابق، ایلون مسک، ٹموتھی میلون، میریم ایڈلسن اور رچرڈ یوہیلین جیسے ارب پتیوں نے ٹرمپ کی حمایت کرنے والے سپر پی اے سیس کو 395 ملین ڈالر کا خطیر عطیہ دیا ہے۔انتخابی مہمات پیسہ کہاں خرچ کرتی ہیں؟

لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے ساتھ، انتخابی مہمات اور پریشر گروپس کو بہت سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔

چونکہ انتخاب قریب ہے اور فیصلہ کن ووٹوں کا انحصار ان ریاستوں کے ووٹرز پر ہے جن کے بارے میں ابھی حتمی اندازہ نہیں کہ وہاں سے کون سا امیدوار کامیاب ہو گا، اس لیے یہ انتخابی مہمات اپنا زیادہ تر پیسہ انہی ریاستوں میں خرچ کر رہی ہیں۔

ان ریاستوں میں سیاسی اشتہارات کی بھر مار ہوتی ہے۔ رہائشیوں کو مہم چلانے والوں کی جانب سے فون کالز کی جاتی ہیں اور ان کے گھروں تک جا کر انہیں اپنی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

2020 کے انتخابات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہمات اپنی بڑی رقوم کا بیشتر حصہ اشتہارات پر خرچ کیا۔

انتخابات پر خرچ ہونے والی رقم پر نظر رکھنے والی غیر منافع بخش تنظیم اوپن سیکرٹس کے اعداد و شمار کے مطابق، چار سال پہلے ہونے والے انتخابات میں تقریباً %56 خرچ میڈیا پر، %10 فنڈ ریزنگ پر، اور تقریباً %17 انتخابی اخراجات اور تنخواہوں پر ہوا۔ %6 انتظامیہ کے لیے، جبکہ %4 حکمت عملی اور تحقیق پر خرچ کیا گیا۔ باقی رقم ”غیر متعین‘‘ کے زمرے میں درج کی گئی ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں