ایرانی میزائلوں کی رینج کیا ہے اور یہ کتنے طاقتور ہیں؟

بیلسٹک میزائل ایران کے ہتھیاروں کا ایک اہم حصہ ہیں اور انہیں یکم اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔ آج بروز ہفتہ ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کو اسی ایرانی حملے کا جواب قرار دیا جا رہا ہے۔

ایران کی ایک سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق ان اسرائیلی حملوں کا ”متناسب جواب‘‘ دیا جائے گا۔

اصل سوال یہ ہے کہ ایران کے میزائل کتنے طاقتور ہیں اور ممکنہ جوابی کارروائی میں ایران اپنے کون کون سے میزائل استعمال کر سکتا ہے؟

امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر کا کہنا ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ بیلسٹک میزائل رکھنے والا ملک ہے۔ اس کی کچھ تفصیلات یوں ہیں:

ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی اِسنا (آئی ایس این اے) نے اپریل میں ایک گرافک شائع کی تھی، جس میں نو ایرانی میزائل دکھائے گئے تھے، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اسرائیل تک پہنچ سکتے ہیں

ان میں ”سجیل‘‘ بھی شامل ہے، جو 17 ہزار کلومیٹر (10,500 میل) فی گھنٹہ سے بھی زیادہ کی رفتار کے ساتھ پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل 2,500 کلومیٹر فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

اِسنا کے مطابق ایران کے ”خیبر‘‘ نامی میزائل کی رینج 2,000 کلومیٹر ہے جبکہ ”حاج قاسم‘‘ کی رینج 1,400 کلومیٹر ہے

واشنگٹن میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایران کے بیلسٹک میزائلوں میں ”شہاب-1‘‘ بھی شامل ہے، جس کی رینج تقریباً 300 کلومیٹر ہے۔ اسی طرح ”ذوالفقار‘‘ نامی میزائل 700 کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسی امریکی ادارے کے مطابق ایرانی میزائل ”شہاب-3‘‘ کی رینج 1000 سے 800 کلومیٹر کے درمیان ہے۔

ایک اور ”عماد-1‘‘ نامی میزائل تیار کیا جا رہا ہے، جس کی رینج 2,000 کلومیٹر تک ہو گی جبکہ ”سجیل‘‘ کی رینج 1500 سے 2500 کلومیٹر کے درمیان ہے۔

ایرانی میزائلوں کا مواد

ایرانی ہتھیاروں کے امور کے ماہر اور برلن میں بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ساتھ منسلک فابیان ہینس کہتے ہیں، ”سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز کے مقامات اور اسرائیل کی حدود میں گرنے والے میزائلوں کی بنیاد پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل کے خلاف ٹھوس اور مائع ایندھن والے میزائلوں کا مجموعہ فائر کیا تھا۔

ہینس کہتے ہیں کہ یکم اکتوبر کو فائر کیے گئے تین ٹھوس پروپیلنٹ میزائل حاج قاسم، خیبر شکن اور الفتح 1 ہو سکتے ہیں جبکہ وسطی ایرانی شہر اصفہان سے داغے جانے والے مائع پروپیلنٹ میزائل شاید عماد، بدر اور خرمشہر تھے۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائل امریکہ، اسرائیل اور دیگر ممکنہ علاقائی حریفوں کے خلاف ایک اہم رکاوٹ اور جوابی قوت ہیں۔

ایران جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کے حصول کی تردید کرتا ہے۔

ایرانی میزائلوں کی زیرزمین تیاری

امریکہ میں قائم فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے ایک سینئر فیلو بہنام بین تلبلو کی سن 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ”ایران نقل و حمل اور انہیں فائر کرنے کے نظام کے ساتھ ساتھ زیر زمین میزائلوں کی تیاری اور انہیں ذخیرہ کرنے کے مراکز تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

ایران نے جون 2020 میں زمین کے اندر سے اپنا پہلا بیلسٹک میزائل فائر کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق برسوں کے ریورس انجینئرنگ میزائلوں اور مختلف رینج کے میزائلوں کی تیاری کی وجہ سے ایران اس شعبے میں ترقی کرتا جا رہا ہے۔

ایسنا نیوز ایجنسی کے ایک رپورٹ کے مطابق جون 2023 میں ایران نے مقامی سطح پر تیار کردہ اپنا پہلا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔

ہائپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے کم از کم پانچ گنا تیز پرواز کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔

آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایران کا میزائل پروگرام زیادہ تر شمالی کوریا اور روسی ڈیزائن پر مبنی ہے اور اسے چینی امداد سے فائدہ ہوا ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں