پاکستان میں انقلاب آنےوالا ہے، ذوالفقارعلی بھٹو جونئیر

صرف 10 فیصد لوگوں تک امداد پہنچی، 90 فیصد اب بھی منتظر ہیں، فیصل ایدھی

پاکستان میں تباہ کن بارشوں کے بعد کئی المیوں کوجنم دینے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنا آسان نہیں، ایدھی فاؤنڈیشن کے فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ 90 فیصد لوگ اب بھی امداد کے منتظرہیں۔

فلاحی تنظیموں کے ارکان، سماجی کارکنوں اورمتاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں میں شامل افراد نے گزشتہ روزکراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ذوالفقارعلی بھٹو بھی شریک تھے۔

پریس کانفرنس کے دوران ایدھی فاؤنڈیشن کے فیصل ایدھی نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان کا کوئی صوبہ محفوظ نہیں رہا، صورتحال انتہائی خراب ہے جو آگے چل کر مزید خراب ہونے والی ہے،اس بار لوگوں کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں ویسا حصہ نہیں لیا جارہا جیسا کہ 2005 کے سیلاب اور 2010 کے سیلاب میں سامنے آئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ، “ اسی لیے ہم عوام ، دنیا کے تمام ممالک، اقوام متحدہ کے ماتحت چلنے والے اداروں ، بڑی این جی اوز، یورپی یونین، یوایس ایڈ سمیت دیگرسے امداد کی اپیل کرنے آئے ہیں کہ ہماری صورتحال بہت نازک ہے ، اس مشکل وقت میں آپ لوگوں نے ہمیں امداد نہ دی اور ایسے ہی چھوڑدیا یا بہت کم امداد دی تو مجھے خوف ہے کہ پاکستان سے بین الاقوامی نقل مکانی شروع ہوجائے گی، جس طرح شام کی جنگ کے بعد ہوئی تھی“۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے3 سے 4 کروڑلوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ کچے اورپکے لاکھوں مکانات تباہ ہو گئے ہیں۔ میں وہاں 9 دن رہ کرآیا ہوں اور صورتحال بہت زیادہ خراب ہے کہ حکومت اور ایدھی سمیت دیگر این جی اوز ابھی تک صرف 10 فیصد لوگوں تک پہنچ پائے ہیں، 90 فیصد کی حالت بہت زیادہ خراب ہے جو اب بھی امداد کے منتظرہیں۔

فیصل ایدھی نے بتایا کہ ، “متاثرین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر نہیں آنا چاہتے اور صرف کھانا مانگتے ہیں۔ ان کے گھروں میں پانی داخل ہوگیا ہے۔ میں نے دادو میں موجود اپنے بیٹے سے بات کی ہے جو خیرپورناتھن شاہ میں ہے اورمہرجانا چاہتا ہے جہاں قاضی عارف گاؤں سے 3، 4 کلو میٹر آگے بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ 25 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں لیکن 4 سے 5 فٹ کھڑے پانی کی وجہ سے ہمیں ان تک پہنچنے کے لیے 300 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا جس میں 7 سے 8 گھنٹے لگیں گے”۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں کھانے پینے کی اشیاء دستیاب نہیں ہیں۔ چاول، چینی، گندم ، پیاز، سبزی، کپاس کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ نرخوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے، لوگوں کو کھانے کو کچھ نہیں مل رہا۔ سندھ اور جنوبی پنجاب کی بھی یہی حالت ہے، کے پی میں اللہ نے کرم کیا۔ بلوچستان میں لسبیلہ ڈسٹرکٹ مکمل تباہ ہوچکا تھا اور اب نصیر آباد، جعفرآباد کی بھی بہت بری حالت ہے۔

فیصل ایدھی نے اس امرپرخوشی کا اظہارکیا کہ حکومت متاثرین میں 25000 روپے تقسیم کر رہی ہے لیکن انہوں نے درخواست کی اس عمل کو تیز کرتے ہوئے امدادی رقم میں اضافہ کیا جائے۔

انہوں نے حکومت سے فوری طور پر بین الاقوامی این جی اوز پر سے ایک سال کے لیے پابندی ہٹانےکی بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے، تھوڑی سی تنقید برداشت کرلیں کیونکہ وہ لوگ کام بھی کرتے ہیں۔ 2010 اور 2005 میں بین الاقوامی این جی اوز نے ریلیف اور بحالی کے کاموں میں اہم کردارادا کیا تھا۔

سوال جواب کے سیشن کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی لانی چاہیے۔ ہمیں یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہین کہ کچھ تنظیمیں ہیں جو اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کررہیں، حکومت کو ایسی این جی اوز کو بھی چیک کرنا چاہیے۔ ہم پہلے ہی منقسم ملک ہیں جومزید تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مجھے قحط نظرآرہا ہے، لوگ کئی کئی دن سے بھوکے ہیں۔ حکومت پلاٹنگ کرے اورمتاثرین کو گھر بنانے کی جگہ دی جائے، یہ بہت بڑا بحران ہے۔ ہمیں موسمیاتیی تبدیلیوں کےاثرات کی سزا مل رہی ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو جونیئر نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں انقلاب آنے والا ہے، لوگ وڈیرہ سسٹم سے بیزارہیں اورسرمایہ دارانہ نظام نہیں چاہتے، ہم بنیاد پرستانہ اصلاحات چاہتےہیں لیکن سیاستدان ہمیں نہیں دے سکتے کیونکہ یہاں سماجی اصلاحات کی گنجائش نہیں، گزشتہ 75 سال سے ہم فیوڈل ازم اورکیپیٹل ازم کے درمیان پھنسے ہیں۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ علاقے کو2 سیلاب کا سامنا ہے، پہلے یہ بارشوں کی شکل میں آیااورپھر خیبر پختونخوا اور پنجاب سے بارش کا پانی دریاؤں کے ذریعے سندھ میں آیا۔ فصلوں کی تباہی کے بھی 2 منفی اثرات ہیں، ایک تو یہ کہ کسانوں کی کمائی کا ذریعہ ختم ہوگیا اور اشیائے ضروریہ بھی انتہائی مہنگی ہوگئیں۔وقت کی ضرورت درآمد کرنا ہے۔ ہمیں چاول، چینی، پیاز، دال، کپاس ایک سال کے لیے درآمد کرنا چاہیے۔ حکومت کو جو امداد مل رہی ہے اس کا ایک حصہ ان درآمدات کے لیے رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ، “ ہمیں بھارت سے درآمد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت سے درآمد کا فائد نقل وحمل کی کم لاگت ہے، سیاسی انا کو ایک طرف رکھیں کیونکہ یہ وقت دیگرچیزوں کو دیکھنے کا نہیں ، جو لوگ سیلاب سے نہیں مریں گے وہ شاید بعد میں بھوک سے مرسکتے ہیں۔ پانی کم ہونے کے بعد پھیلنے والی بیماریوں کو بھی دیکھنا ہوگا“۔

ریٹائرڈ جسٹس رشید اے رضوی نے بھی این جی اوز پر سے پابندی ہٹانے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس کام کرنے کے لیے رضاکارموجود نہیں ہیں جبکہ انٹرنیشنل این جی اوز کو بھی کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، حکومت ان پرعائد پابندی اٹھائے۔

نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمارکے مطابق سیلاب کی تباہ کاريوں کے باعث اب تک ملک بھر میں ایک ہزار265 اموات رپورٹ ہوچکی ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں