مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عرب مسلم راہنماﺅں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے. وائٹ ہاﺅس
امریکہ کی بڑی مسلم، عرب تنظیموں اور فلسطینیوں کے حامی گرووپوں نے الزام عائد کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں تنازع کے حل کے لیے نائب صدر کاملا ہیرس کے دفتر کی جانب سے کمیونٹی سے رابطوں میں انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے امریکہ کی نائب صدر اور آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار کاملا ہیرس کے دفتر کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عرب مسلم راہنماﺅں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے
وائٹ ہاﺅس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ انتظامیہ نے تنازع کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں مسلم عرب اور فلسطینی امریکی کمیونٹی سے رابطہ کیا ہے نائب صدر کے قومی سلامتی کے مشیر فل گورڈن نے مسلم‘ عرب راہنماﺅں اور فلسطینی امریکیوں سے ورچوئل یعنی آن لائن ملاقاتیں کی ہیں تاکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے انتظامیہ کی کوششوں سے آگاہ کیا جا سکے یہ ملاقاتیں غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے انتظامیہ اور عرب مسلم کمیونٹی کے درمیان پیدا ہونے والی د±وریاں کم کرنے کی کوشش قرار دی جا رہی ہیں.
امریکا میں بڑے کمیونٹی گروپ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز‘ مسلم پبلک افیئرز کونسل سمیت دیگر فلسطینیوں کے حامی گروپس کو ان ملاقاتوں میں مدعو نہیں کیا گیا یہ گروپ غزہ جنگ سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے گروپوں بشمول میک اسپیس‘ دی دارالحجرہ اسلامک سینٹر‘ مصطفیٰ سینٹر اور دیانیٹ سینٹر آف امریکہ کے نمائندوں کو بھی نہیں بلایا گیا.
عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے صدر جیمز زوگبی دیگر8 افراد کے ساتھ اس ملاقات میں شریک تھے انہوں نے کہا کہ یہ میٹنگ بہت پریشان کن تھی کیوں کہ اس میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز مدعو نہیں تھے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں زوگبی کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا تھا یہ عرب امریکیوں اور مسلمانوں کی میٹنگ ہے لیکن وہاں کوئی فلسطینی راہنما نہیں تھا وہاں کچھ فلسطینی امریکی تھے لیکن فلسطینی امریکیوں کی نمائندگی کرنے والی کوئی تنظیم نہیں تھی.
ان کا کہنا تھا کہ یہ بظاہر ایک رسمی کارروائی تھی لہذٰا انتظامیہ نے کمیونٹی کے ان افراد کو نہ بلا کر ایک اچھا موقع ضائع کیا وائٹ ہاﺅس اور نائب صدر کے دفتر نے اس حوالے سے نشریاتی ادارے کے سوالات کا جواب نہیں دیا تاہم ان کی انتخابی مہم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کاملا ہیرس ہر ووٹ حاصل کرنے امریکہ کو متحد کرنے اور تمام امریکیوں کی صدر بننے کے لیے پرعزم ہیں.
ان کا کہنا تھا کہ اپنے کریئر کے دوران کاملا ہیرس ملک کی مسلم کمیونٹی کی حمایت میں ثابت قدم رہی ہیں تاہم وہ غزہ میں جنگ بندی کے ایسے حل کی خواہاں ہے جس میں اسرائیل کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے یرغمال رہا ہوں اور غزہ کے عوام کی مشکلات کم ہوں ایک نئے سروے کے مطابق صدارتی امیدواروں کاملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کو بظاہر عرب امریکیوں کی برابر حمایت حاصل ہے عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ’ کی جانب سے چند روز قبل ایک سروے کے نتائج جاری کیے گئے ہیں جن میں 500 عرب امریکیوں کے سروے میں 42 فی صد نے ٹرمپ جب کہ 41 فی صد نے کاملا ہیرس کی حمایت ظاہر کی سروے میں سامنے آیا ہے کہ غزہ جنگ سے متعلق انتظامیہ کی پالیسی نے عرب امریکیوں کو ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت سے دور کیا ہے روایتی طور پر یہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں گو کہ عرب امریکی کمیونٹی کی تعداد بہت کم ہے تاہم ماہرین کے مطابق بعض ریاستوں میں یہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جن میں ”بیٹل گراﺅنڈ“ ریاست مشی گن بھی شامل ہے جہاں عرب امریکی کمیونٹی کی اکثریت آباد ہے سال 2020 میں صدر بائیڈن نے ایک لاکھ 54 ہزار ووٹوں کی برتری سے یہاں کامیابی حاصل کی تھی.
سال 2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 11 ہزار سے بھی کم ووٹوں سے ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی بائیڈن انتظامیہ کہ جانب سے اسرائیل کی حمایت کے بعد مشی گن میں ایک لاکھ ووٹرز نے ڈیموکریٹک پرائمری الیکشن میں ”ان کمیٹڈ“ رہنے کا اعلان کیا تھا ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ان ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں.