اسرائیل کے سخت ترین ناقد ہونے کے باوجود، ترکی نے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ عسکریت پسند گروپ، حزب اللہ پر حملوں اور اس کے رہنما حسن نصراللہ کی ہلاکت پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں ترکی کے ماہر اسلی آیدنتاسباس نے کہا، “حزب اللہ کو ہونے والے نقصانات سے ترکی کے سب سے بڑے علاقائی حریف ایران کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے اور یہ ایسی بات نہیں جس پر ترکی افسوس کرے۔
غزہ کی جنگ: ترکی نے اسرائیل سے تجارتی تعلقات معطل کر دیے
ترکی کے سنی صدر رجب طیب ایردوآن گذشتہ سال فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے ایک مہلک حملے کے بعد غزہ پر تباہ کن حملے کے آغاز کے بعد سے ہی اسرائیل کی سخت مذمت کرتے رہے ہیں۔
لیکن انقرہ نے حزب اللہ کے حالیہ نقصانات پر براہ راست عوامی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، حالانکہ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد ان کی تعریف کی
ترکی: اسرائیل کے لیے جاسوسی کے شبہ میں درجنوں افراد گرفتار
واشنگٹن میں ایک تحقیقی مرکز مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر گونول تول نے کہا، “اگر اس سے ایران اور حزب اللہ سمیت اس کے اتحادی شیعہ گروہوں کو طویل مدتی کمزور کرنے میں مدد ملتی ہے، تو یہ واقعی ترکی کے لیے شام اور عراق میں زیادہ غالب کردار ادا کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔
حزب اللہ پر حملوں سے ترکی مطمئن کیوں ہے؟
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترکی حزب اللہ اور بالواسطہ طور پر ایران کو ہونے والے نقصانات سے اس لئے بھی مطمئن ہے کیونکہ وہ پڑوسی ملک شام کے رہنما بشار الاسد کی حمایت کرتا ہے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک جرمن مارشل فنڈ کے اوزگور انلوہسارکلی نے کہا کہ ترکی اور حزب اللہ “شاید ہی علاقائی مسائل کے حوالے سے ایک ہی صفحے پر ہیں۔
خاص طور پر شام میں جہاں مؤخر الذکر حکومت کی حمایت کرتا ہے اور اسد کے جنگی جرائم میں ملوث ہے۔”
اسد اور ان کے حریفوں کے درمیان خانہ جنگی نے ترکی کی جنوبی سرحد کو غیر مستحکم کر دیا ہے اور لاکھوں پناہ گزینوں کو اس کے علاقے میں دھکیل دیا ہے۔
آیدنتاسباس کے مطابق “ترکی کے نقطہ نظر سے، ایران اور حزب اللہ ہی شام میں بدامنی کی وجہ ہیں
اوزگور انلوہسارکلی کا خیال ہے، “اگرچہ نصراللہ کی موت اور حزب اللہ کے نقصانات کے بارے میں ترکی میں رائے مختلف ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ ترکی حماس کے مقابلے میں ان نقصانات کے حوالے سے کم فکر مند ہے۔”
‘ایردوآن خود کو رہنما کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں’
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایردوآن سنی ملکوں، خاص طور پر جہاں تک غزہ کی مستقبل کی سلامتی کا تعلق ہے، میں خود کو ایک رہنما کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم ایک غیر منفعتی تنظیم فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں ترک سیاست کے ماہر سنان سیدی نے کہا کہ ایردوآن نے ستمبر میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کی میزبانی کی اور ممکنہ طور پر غزہ میں تنازع کے بعد دونوں ممالک کے درمیان “ایک وسیع تر ہم آہنگی کے کردار” پر تبادلہ خیال کیا۔
اسرائیل حماس لڑائی: محمد بن سلمان کی ترک اور ایرانی صدور سے بات چیت
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایردوان کے طنزیہ بیانات نے خطے میں ثالث کے طور پر ان کے ممکنہ کردار کو کم کیا ہے۔
لیکن دوسرے محاذوں پر، “انقرہ جو کچھ کہتا ہے اور کرتا ہے اس میں بہت محتاط ہے کیونکہ ایران کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ حساس ہوتے ہیں۔”
آیدنتاسباس کا کہنا تھا “ترکی واضح طور پر اس سے بھی زیادہ علاقائی کشیدگی اور ایران اور اسرائیل کے درمیان غیر متوقع مضمرات کے ساتھ ہمہ گیر جنگ کے بارے میں فکر مند ہے۔ لیکن وہ اس سے الگ رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔”