چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کرے گا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 63اے نظر ثانی کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا ہے۔ میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ سماعت کیلئے تشکیل دے دیا گیا۔ 5 رکنی لارجر بنچ 30 ستمبر کو آرٹیکل 63اے نظر ثانی کیس کی سماعت کرے گا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی نے 63اے نظر ثانی پر بنچ تشکیل دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرٹیکل 63اے نظرثانی بنچ کی سربراہی کریں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان بنچ میں شامل ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے بغیر چلے گئے۔ اجلاس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خا نے شرکت کی۔ اسی طرح سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کیس سماعت کیلئے 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ 5رکنی بنچ کی سربراہی میں کریں گے۔لارجر بنچ میں جسٹس یحیٰ آفریدی ، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ رجسٹرار کے مطابق آڈیو لیکس کمیشن کیس کی سماعت کی تاریخ بعد میں بتائی جائے گی۔ دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کے خلاف درخواست پر متعلقہ بینچ نہ ہونے کا اعتراض ختم کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی،لاہور ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس فیصل زمان خان نے بطور اعتراض درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزار نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے۔صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے۔ عدالت پٹیشن کے حتمی فیصلہ تک صدارتی آرڈیننس پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کرے۔
عدالت نے غیر ضروری اعتراض عائد کرنے پر رجسٹرار آفس کے افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ کیا اعتراض لگا دیا آپ نے؟ وفاقی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے تو یہ کہیں بھی چیلنج ہو سکتا ہے۔جسٹس فیصل زمان خان نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ رجسٹرار آفس آئندہ غیر ضروری اعتراضات عائد کرنے سے گریز کرے۔بعدازاں عدالت نے درخواست پر متعلقہ بینچ نہ ہونے کا اعتراض ختم کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیاگیاتھا۔ درخواست اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیاتھا۔عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ عدالت صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے اور پٹیشن کے حتمی فیصلہ تک صدارتی آرڈیننس پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کیا جائے۔
درخواست گزار کا موقف تھا صدارتی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی تھا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔قبل ازیںصدر مملکت آصف علی زرداری نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس پر دستخط کر دئیے تھے جس کے بعد یکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس جاری کر دیا گیاتھا۔
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔ کابینہ نے ترمیم کی منظوری سرکولیشن سمری کے ذریعے دی گئی تھی۔وزارت قانون نے گزشتہ روز آرڈیننس وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کو بھجوایا گیا تھا۔ کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجرآرڈیننس منظوری دے دی تھی۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 2 کی ذیلی شق ایک کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی مقدمات مقرر کرے گی۔
کمیٹی چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل ہو گی۔آرڈیننس سے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے مقدمات مقرر کرنے میں اختیار بڑھ جائیں گے۔ آرڈیننس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان، سینئر جج اور چیف جسٹس کا مقررکردہ جج کیس سماعت کیلئے مقرر کرے گا۔ آرڈیننس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن تین میں ترمیم کی گئی ہے، سیکشن تین کی ذیلی شق دو کے تحت اور آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت معاملہ پر سماعت سے قبل مفاد عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی۔