وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملک خیرات سے نہیں چلتا ہے، معیشت کی بہتری کے لیے ہر ایک کو کردار ادا کرنا ہوگا،یہاں 43 فیصد شعبے ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں، تنخواہ دار طبقہ جی ڈی پی میں اپنا حصے سے زیادہ ادا کر رہا ہے، یہ ملک کب تک ایسے چلتا رہے گا؟۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ موضوعات پر بات کرنا چاہتے ہیں، مائیکرو اکنامکس کے استحکام کے حوالے سے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ہماری کرنسی مستحکم ہے، ان چیزوں کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ گزشتہ 18 سے 24 ماہ میں جتنا بھی ہمارا بیک لاک تھا، وہ امپورٹ ایل سیز یا پھر امپورٹ کانٹریکٹس یا پھر جو پروفٹ ریمٹنس رکی ہوئی تھیں، وہ سارا بیک لاک کلیئر ہو چکا ہے، اسی طرح مہنگائی 38 فیصد پر تھی مگر آج 9.6 پر ہے، مہنگائی کی شرح میں کمی آنے سے پالیسی ریٹ میں بھی کمی آئی ہے، اس سے معیشت کو خاص طور پر صنعتی شعبے کو فائدہ ہوگا۔
وزیر خزانہ نے اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو افراط زر میں کمی پر مبارکباد دی ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام اسٹیک ہولڈرز محنت کر کے افراط زر کو سنگل ڈجت پر لے کر آئے، مجھے امید ہے پالیسی ریٹ اور شرح سودکو اسی افراط زر کے تحت نیچے جاتے دیکھیں گے۔
ریٹنگ ایجنسیز سے متعلق وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ دونوں ریٹنگ ایجنسیز فچ اور موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ کو بہتر کیا ہے، یہ اس بات کی طرف نشاندہی ہیکہ معیشت صحیح سمت میں جا رہی ہے جیسے وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ ہمیں ابھی بہت آگے جانا ہے، ہمیں کہیں سے تو شروعات کرنی تھی، مگر اس شروعات کی سمت صحیح ہونی چاہیے، تاکہ ہم ایک مستحکم معیشت کی جانب جا سکیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ میکرو اکنامکس کے استحکام کی بات کرتے ہیں، ہم ایک معاشی استحکام کی بات کرتے ہیں، یہ ایک بنیاد ہے جس پرپوری عمارت کھڑی ہوگی، میکرو اکنامک کا استحکام دراصل بنیادی ہائیجین ہے، استحکام کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے، ہم یہ تمام چیزیں کر کے دیکھ چکے ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس وقت جو چیزیں درست سمت میں جا رہی ہیں، انہیں اپنانا چاہیے، محمد اورنگزیب نے کہا کہ ایف بی آر کی محصولات کو بڑھانے کی بنیادی وجہ ہے، گزشتہ سال ہم نے 29 فیصد ٹیکس ریوینیو بڑھائے مگر پھر بھی ہم 8.8 فیصد ٹیکس جی ڈی پی پر تھے، کوئی بھی ملک اس طرح مستحکم نہیں ہو سکتا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ میری آپ سب سے استدعا ہے اس صنعت میں 43 فیصد شعبے ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں، ہمیں سب کو اس شعبے سے جامع گزارش کرنی ہے، کہ آپ اس کا بوجھ اکٹھے سنبھالیے۔
وزیر خزانہ نے ہو ل سیلرز سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ جتنے میرے ہول سیلرز، ڈسٹریبیوٹرز، ریٹیلرز ہیں، ان سے گزارش ہے کہ آپ قدم بڑھائیں اور ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں، ہم جو سہولت فراہم کر سکے، وہ ہم ضرور کریں گے، آپ کے مشوروں کا جائزہ لے کر ان پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ کچھ طبقے اس وقت نالاں ہیں، خیرات سے ملک نہیں چلتے ہیں، اس لیے میری گزارش ہے اس میں ہماری مدد کریں اور ہمیں ٹیکس اس طرف بھی لے جانا پڑے گا۔
وفاقی وزیر کا ٹیکس سے متعلق بتانا تھا کہ ٹیکس کے حوالے سے جو ہم مخصوص کام کر رہے ہیں اور نفاذ کر رہے ہیں، اس کے ثمرات ستمبر تک آنا شروع ہوں گے، ہمیں اکانومی کا پہیہ بھی چلانا ہے اور محصولات کو بھی آگے لے کر جانا ہے۔
وزارتوں اور محکموں میں رائٹ سائزنگ سے متعلق وزیر خزانہ نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے سائز میں کمی ہوگی، مگر اس کا ایک طریقہ کار ہے، چھ وزارتوں کو لے کر گئے ہیں، اس میں سے دو وزارتیں ضم ہو رہی ہیں، ضم ہونے کے بعد گریڈ 22 کے افسران میں کمی ہوگی، لیکن یہ صرف اعلانات کی بات نہیں ہوتی ہے، اس کے بعد اگلے مرحلے میں عمل درآمد ہوتا ہے، عمل درآمد کے بعد اگلی 5 وزارتوں سے متعلق ایکشن لیا جائے گا۔
یہ جو بات ہو رہی ہے کہ بڑے بڑے افسران کو چھوڑ دیا گیا ہے، اس میں قانون ساز ایجنڈا کی ضرورت ہے، جو ہم نے کھل کر بات کی ہے کہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں قانون سازی کرنی ہے، اتحادیوں سے بات کر کے اسمبلی سے پاس کرانا ہے، 2019 کی کابینہ میں بھی پیش کیا گیا تھا، تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔
آئی ایم ایف سے بات چیت سے متعلق وزیر خزانہ نے بتایا کہ جولائی میں آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کچھ ایڈوانس مرحلے میں ہیں، وقت پر یہ پروگرام ایگزیکٹو بورڈ سے منظور ہوگا۔
وزیر خزانہ نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتوں اور وزرائے اعلی کے تعاون کے بغیر اسٹاف لیول معاہدہ بھی نہیں ہو سکتا تھا، میں بطور وزیر خزانہ، وفاقی حکومت شکریہ ادا کرتا ہوں، کیونکہ بین الاقوامی پروگرامز خود مختاروں کو دیکھتے ہیں، اور یہاں خود مختار صوبائی حکومتیں اور وفاق ہے، ہم صوبوں سے مشاورت کے بعد ہی اسے کامیاب پروگرام بنائیں گے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسٹرکچر اصلاحات کو پورا کریں۔