برطانیہ نے اسرائیل کو اسلحے کی سپلائی روک دی

خدشہ ہے ہماری ایکسپورٹ غزہ میں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں استعمال ہوگی، برطانوی سیکریٹری خارجہ

برطانوی حکومت نے عارضی طور پر اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی روک دی ہے۔

برطانوی حکومت کی جانب سے پیر کو جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کو کچھ ہتھیاروں کی ایکسپورٹ معطل کی جارہی ہے کیونکہ ان کا استعمال بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

برطانوی سکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اس بات کا ”واضح خطرہ“ موجود ہے کہ کچھ آئٹمز کو ’بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب یا سہولت فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے قانون سازوں کو بتایا کہ یہ فیصلہ سازوسامان کے 350 برآمدی لائسنسوں میں سے 30 سے ​​متعلق ہے ’جو اندازے کے مطابق غزہ میں موجودہ تنازعے میں استعمال کے لیے ہیں‘، ان میں فوجی طیاروں اور ڈرونز کے پرزے اور زمینی ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء شامل ہیں۔

برطانیہ اسرائیل کے ان کئی دیرینہ اتحادیوں میں شامل ہے جن کی حکومتوں پر غزہ میں 11 ماہ پرانی جنگ کی وجہ سے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

اسرائیل نے حماس کے زیر انتظام علاقے میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 40,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا ہے۔

برطانوی کمپنیاں نسبتاً کم مقدار میں ہتھیار اور پرزے اسرائیل کو فروخت کرتی ہیں۔

اس سال کے شروع میں برطانوی حکومت نے کہا تھا کہ 2022 میں اسرائیل کو فوجی برآمدات 42 ملین پاؤنڈ (53 ملین ڈالرز) تھیں۔

جولائی میں منتخب ہونے والی برطانیہ کی سنٹر لیفٹ لیبر حکومت کو اپنے ہی کچھ اراکین اور قانون سازوں کے دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ تشدد کو روکنے کے لیے اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالے۔

انتخابات میں پارٹی نے کئی ایسی نشستیں کھو دیں تھیں جن کے حوالے سے امید تھی کہ وہ جیت لی جائیں گی، لیکن لیڈر کیئر سٹارمر نے ابتدائی طور پر اسرائیل کی طرف سے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کا بدلہ لینے کے بعد جنگ بندی کا مطالبہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس پر ان سے وہ سیٹیں چھن گئیں۔

اپنے قدامت پسند پیشرو کے مؤقف سے علیحدگی میں، سٹارمر کی حکومت نے جولائی میں کہا تھا کہ برطانیہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ کی درخواست میں مداخلت نہیں کرے گا۔

سٹارمر نے اقوام متحدہ کی فلسطین ریلیف ایجنسی UNRWA کے لیے فنڈنگ ​​بھی بحال کی، جسے ان کے قدامت پسند پیشرو رشی سنک کی حکومت نے جنوری میں معطل کر دیا تھا۔

ڈیوڈ لیمی، جنہوں نے جنگ بندی کے لیے مغربی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر گزشتہ دو ماہ میں دو مرتبہ اسرائیل کا دورہ کیا، کہا کہ وہ ”اسرائیل کے دوست“ ہیں، لیکن غزہ میں تشدد کو ”خوفناک“ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں سے شہریوں کی جانوں کا بے پناہ نقصان ہوا، شہری بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر تباہی اور بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں