پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کا اغواء کاروں سے رہائی کے بعد بیان سامنے آگیا

اغواء کے بعد خارجی ہمیں نامعلوم مقام پر لے گئے جہاں انہوں نے ہم سے زبردستی ویڈیو بنوائی اور اپنی مرضی کا فوج مخالف بیان دلوانے کیلئے کئی بار ری ٹیک کرائے۔ لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر کا بیان

پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کا اغواء کاروں سے رہائی کے بعد بیان سامنے آگیا، رہائی کے لیے کوششیں کرنے پرمقامی مشران کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر نے اپنے بیان میں بتایا کہ ہم تینوں بھائی والد کے جنازے کے بعد مسجد میں دعا کے لیے ساتھ بیٹھے تھے کہ اس دوران 12 سے 14 خوارج اسلحے سمیت مسجد میں گھس آئے، جو پشتون اور اسلامی روایت کے سراسر خلاف ہے، وہاں سے خارجی ہمیں نامعلوم مقام پر لے گئے جہاں پر انہوں نے ہم سے زبردستی ویڈیو بنوائی اور اپنی مرضی کا فوج مخالف بیان دلوانے کیلئے کئی بار ری ٹیک کرائے، ان خوارج کو تو نماز پڑھنے کا درست طریقہ بھی نہیں آتا، پاک فوج حق اور سچ کے ساتھ جہاد اور ملک دفاع کررہی ہے۔

خیال رہے کہ ہفتہ اکتیس اگست کو رات گئے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان اور ان کے خاندان کے تین دیگر افراد کو، جنہیں بدھ کے روز ایک مقامی مسجد سے اغواکر لیا گیا تھا، اغوا کاروں نے رہا کر دیا ہے، اس حوالے سے پاکستان آرمی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ فوجی افسر اور ان کے تینوں رشتے داروں کی محفوظ رہائی قبائلی عمائدین کی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہو سکی اور یہ رہائی ”غیر مشروط طور پر‘‘ عمل میں آئی اور ‘تمام مغوی بحفاظت اور بخیریت واپس گھر پہنچ گئے ہیں۔

‘‘ بتایا جارہا ہے کہ مغویوں میں پاکستانی فوج کے یہ اعلیٰ افسر، ان کے دو بھائی، جو دونوں سرکاری افسر ہیں، اور ان کا ایک بھتیجا شامل تھے، وہ سب لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان کے مرحوم والد کی تدفین کے بعد ایک مسجد میں تعزیت کے لیے آنے والوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے تھے کہ مسلح عسکریت پسند ان چاروں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

یہ واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان مین پیش آیا جو شمال مغربی پاکستان میں صوبے خیر پختونخوا کا ایک ضلع ہے جہاں ممنوعہ تنظیم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند کافی سرگرم رہے ہیں، لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان اور ان کے بھائیوں اور بھتیجے کے اغوا کی ذمے داری اپنے طور پر تو کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے قبول نہیں کی تھی، تاہم گزشتہ بدھ کے روز ان کے اغوا کے چند گھنٹے بعد ایسے ویڈیو بیانات منظر عام پر آئے تھے، جن میں چار میں سے دو مغویوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستانی طالبان کے قبضے میں تھے، ان ویڈیو بیانات میں ان دونوں مغویوں نے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ اغوا کاروں کے مطالبات تسلیم کرے اور ان کی رہائی کے لیے کوششیں کرے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں