جنگ بندی کے معاہدے میں ناکام ہوگئے تو تنازع مزید شدت اختیار کرئے گا اور پورے خطے کا امن خراب ہوسکتا ہے. انتونی بلنکن کی اسرائیلی صدر سے ملاقات
امریکہ کے وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے دوران جنگ بندی کے مذاکرات مغویوں کی رہائی کے لیے ممکنہ طور پر بہترین اور شاید آخری موقع ہو سکتا ہے انتونی بلنکن نے اکتوبر میں جنگ کے آغاز سے اب تک مشرق وسطیٰ کے اپنے نویں دورے کے دوران آج اسرائیلی صدر اسحاق رابین سے ملاقات کے دوران یہ بات کی ہے.
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق گذشتہ ہفتے قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے بعد امریکہ نے بہت امید کا اظہار کیا ہے جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں پیشرفت کی باتیں محض دھوکہ ہے ان مذاکرات میں یہ بھی اختلاف ہے کہ آیا معاہدے کے نتیجے میں اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر انخلا کر دیں گی یہ حماس کا ایک بنیادی مطالبہ ہے.
انتونی بلنکن آج اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو سے بھی ملاقات کریں گے اور مذکرات کے حوالے سے بات چیت ہوگی امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیلی صدر کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ہم اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ مزید لڑائی نہ بڑھے اس حوالے سے مزید کوئی ایسے حالات نہ پیدا ہوں جس سے تنازع میں اضافہ ہو اور نہ کوئی ایسا عمل ہو جس سے ہم اس جنگ بندی کے معاہدے میں ناکام ہو جائیں یا اس معاملے میں تنازع مزید جگہوں تک نہ پھیلے اور نہ مزید شدت اختیار کر سکے.
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد سے یہ میرا اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کا نواں دورہ ہے اور یہ بہت فیصلہ کن لمحات ہیں اور ممکنہ طور پر بہترین اور جنگ بندی کے معاہدے کے ذریعے سب کو اچھی راہ پر لانے اور دیرپا امن کے ساتھ شاید مغویوں کو گھر لانے کا آخری موقع ہو گا اس وقت ہونے والے مذاکرات امریکہ کی طرف سے حماس اور اسرائیل میں دوریاں ختم کرنے کے لیے پیش کردہ تجاویز کی روشنی میں ہو رہے ہیں امریکی حکام کو یہ امید ہے کہ وہ آئندہ ہفتے تک جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے.
تاہم اس طرح کی امید کا اظہار حماس اور اسرائیل کی طرف سے سامنے نہیں آیا ہے ہر دو فریق ایک دوسرے پر ہٹ دھرمی اور جنگ بندی معاہدے میں تعطل کے لیے الزامات عائد کرتے ہیں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا دعوی ہے کہ اسرائیل کے دفاعی چیف بھی وزیراعظم نیتن یاہو پر حماس کے ساتھ معاہدہ کر کے غزہ میں جنگ بندی کے لیے زور دے رہے ہیں جب سے اسرائیل کے مذاکرات کاروں نے آخری بار مذاکرات کے لیے قطری دارالحکومت کا دورہ کیا تھا اس کے بعد سے معاہدے کے لیے دباﺅ میں اضافہ ہوا اسرائیل میں یرغمالیوں کے رشتہ داروں اور لواحقین کا خیال ہے کہ یہ ان میں سے کچھ کو زندہ نکالنے کا آخری موقع ہے.
جنگ بندی معاہدے کے پہلا مرحلے میں چھ ہفتوں کے دوران جنگ بندی، غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا، قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی کو یقینی بنانا ہے‘دوسرے مرحلے میں فوجیوں سمیت حماس کی قید میں تمام زندہ لوگوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا شامل ہوگا اور اگر فریقین اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو عارضی جنگ بندی دشمنی کا مستقل خاتمہ بن جائے گی جبکہ تیسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی لاشوں کی واپسی بھی شامل ہو گی.