سپریم کورٹ کے سنئیر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ کے آرڈرز پر عملدرآمد نہ ہو اگر اس طرف چل پڑے تو آئینی توازن بگڑ جائے گا، سپریم کورٹ نے فیصلہ کرلیا تو اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
ہفتہ کے روز عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کہا گیا جو درست نہیں، میں سینئر ترین جج ہوں قائم مقام چیف جسٹس نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی میرے دوست ہیں اور وہ چیف جسٹس پاکستان ہیں، میں سینئر ترین جج ہی ٹھیک ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی تندرست اور توانا ہیں، اللہ پاک ان کو صحت دے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنا غیر آئینی ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی کے پاس یہ آپشن نہیں کہ کہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد روایت نہیں بلکہ لازمی تقاضا ہے اور سپریم کورٹ کو یہ اتھارٹی کہیں اور سے نہیں بلکہ آئین سے حاصل ہوتی ہے، آئین کہتا ہے کہ یہ فیصلہ ہے اور اس پر عملدرآمد ہونا ہے، اور یہی طریقہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی نیا نظام لانا چاہتے ہیں تو بنالیں، معاملات اس طرح نہیں چلیں گے، یا پھر سارا اسٹرکچر تبدیل کردیں کچھ اور بنالیں، لیکن اس وقت جو آئین ہے اور اس کا جو اسٹرکچر ہے اس کے مطابق تو یہی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق اس فیصلے کی عزت بھی کرنا ضروری ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے، کسی کے پاس چوائس نہیں ہے کہ وہ اس کو جج کرے کہ یہ فیصلہ ٹھیک ہے یا نہیں، یہ اختیار صرف اور صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے کہ اس نے جو فیصلہ کرلیا، اس کو تسلیم کرنا ہوگا، اور یہ اس ملک کا سسٹم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتے تو اس کے نتائج بھی ہیں، اگر اس پر عمل نہ کیا جائے، اور یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہم نے دیکھا ایک فیصلہ چل رہا ہے لیکن کافی وقت گزرنے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہورہا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو بھی ہم دیکھیں گے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میرے پاس اختیار ہوگا تو ہم اس فیصلے پر بھی عملدرآمد کروائیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 96.3 فیصد مسلمان ہیں، ہندو 1.6 فیصد، کرسچن 1.6، باقی دیگرمذاہب ایک فیصد سے بھی کم ہے، اقلیت صرف تعداد کے لحاظ سے کم ہیں لیکن آئین میں انہیں مسلمانوں کے برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، پاکستان سے متعلق جو انٹرنیشنل رپورٹس آرہی ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں، عدلیہ میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام رہے ہیں، رانا بھگوان داس، رستم سہراب جی سدھوا سمیت بڑے ججز شامل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ مذہبی آزادی سب کو حاصل ہے، حضور پاکﷺ نے عیسائیوں کے چرچ کی زمین پر قبضہ کرنے سے روکا اور ان کو حقوق دیے، اسلام ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی تعلیم دیتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسلام کے بعد آئین پاکستان بھی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمارے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا، بابا گرونانک سمیت ہر مذہب کے رہنمائوں نے احترام و بردباری کی بات کی، سمجھ نہیں آتی کہ مذہبی انتشار اور غصہ کیوں کیا جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ اسلام ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی تعلیمات دیتا ہے، اسلام کے بعد آئین پاکستان کی بات کریں تو آئین پاکستان بھی اقلیتوں کو تحفظات فراہم کرتا ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 21,22,23،25 دیکھیں جو کہ اقلیتوں سے متعلق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ میں اقلیتوں کیلئے پانچ فیصد کوٹے کا تحفظ یقینی بنایا تھا، سپریم کورٹ قرار دے چکی پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں، بین المذاہب ہم آہنگی پر مباحثے کی ضرورت ہے، تمام مذاہب دوسرے مذاہب کو جگہ دیتے ہیں تو ان کے ماننے والے کیوں نہیں دیتے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ہر مذہب ایک دوسرے کو جگہ دے رہا ہے لیکن ہم کیوں اتنے تنگ نظر ہیں، ہمارے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا۔