ایک طرف شیخ حسینہ واجد کی حکومت جانے پر بھارت میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے تو دوسری جانب عالمی برادری بھی اس معاملے پر کڑے نظر رکھے ہوئے ہے۔
رہائش گاہ پر کابینہ کمیٹی برائے سکیورٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں بھارتی وزیرِ دفاع، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور وزیر خارجہ جے شنکر موجود تھے، بھارتی وزیرِ داخلہ اور وزیرِ خزانہ بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
اجیت دوول اور جے شنکر نے بنگلہ دیش کی صورتِ حال پر وزیراعظم اور کابینہ کو بریفنگ دی۔
’بنگلہ دیش میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے‘
دوسری جانب برطانیہ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر کے ترجمان نے آج پیر کو شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش کی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفا دے کر ملک چھوڑنے پر ردعمل دیتے ہوئے لندن میں صحافیوں کو بتایا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش میں جو تشدد ہم نے دیکھے ہیں وزیر اعظم سٹارمر اس سے شدید غمزدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ جمہوریت کے تحفظ اور بنگلہ دیش کے عوام کی سلامتی اور امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے فوری کارروائی کی جائے گی۔
لیکن اس سے قبل وہ بھارت پہنچی تھیں، جہاں انہوں نے ایک ضروری ملاقات کی۔
یورپی یونین کا ’منظم‘ منتقلی کا مطالبہ
شیخ حسینہ واجد کے فرار ہونے اور فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یورپی یونین نے پیر کو بنگلہ دیش میں جمہوری حکمرانی کی ”منظم اور پرامن“ منتقلی کا مطالبہ کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا کہ ’یورپی یونین پرسکون رہنے اور تحمل کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے مکمل احترام کے ساتھ جمہوری طور پر منتخب حکومت کی طرف منظم اور پرامن منتقلی کو یقینی بنایا جائے۔‘
جرمنی کا ردعمل سے انکار
جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس معمالے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف اتنا کہا ہے کہ ’اہم ہے یہ ہے کہ بنگلہ دیش اپنے جمہوری راستے پر گامزن رہے‘۔
’ان کی مسلسل حکمرانی ناقابل برداشت ہے‘
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی تشکیل جمہوری اور جامع ہو۔
وائٹ ہاؤس نے پیر کو جاری بیان میں کہا کہ امریکہ بنگلہ دیش کی صورت حال کی نگرانی باریک بینی سے کر رہا ہے، جہاں وزیر اعظم مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے بعد ملک سے فرار ہو گئی ہیں، ہم عبوری حکومت کی تشکیل کے عمل کو جمہوری اور جامع ہونے پر زور دیتے ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ ہم تمام فریقین کو مزید تشدد سے باز رہنے اور جلد از جلد امن بحال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
امریکی سینیٹ میں اکثریتی رہنما چک شومر نے ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ ’ان کی مسلسل حکمرانی ناقابل برداشت ہے، میں بہادر مظاہرین کی تعریف کرتا ہوں اور مقتولین کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتا ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ ایک متوازن عبوری حکومت کا قیام بہت ضروری ہے جو سب کے حقوق کا احترام کرتی ہو اور تیزی سے جمہوری انتخابات کا انعقاد کرے۔
سری لنکا کا بیان
سری لنکا کے وزیر خارجہ علی صابری نے کہا کہ، ’ہم بنگلہ دیشی قوم کی لچک اور اتحاد پر یقین رکھتے ہیں اور امن اور استحکام کی تیزی سے واپسی کی امید رکھتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’امید ہے بنگلہ دیش کے لوگوں کو ان چیلنجوں پر قابو پانے اور مزید مضبوط ہونے کی طاقت ملے گی‘۔
بنگلہ دیش میں سیاسی قوتوں کی اقتدار میں تبدیلی اس ملک کا اندرونی معاملہ ہے، روس
روس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک کے حالات بنگلہ دیش کی فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ توقع ہے کہ جلد ہی عبوری حکومت قائم ہو جائے گی۔
بیان میں کہا گیا کہ ڈھاکہ میں ہمارے سفارت خانے کے اعداد و شمار کے مطابق فسادات کے دوران روسی شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ماسکو یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ بنگلہ دیش میں سیاسی قوتوں کی اقتدار میں تبدیلی اس ملک کا اندرونی معاملہ ہے، اور ساتھ ہی ہم ہمارے دوست ملک میں داخلی سیاسی عمل کی آئینی پٹڑی پر تیزی سے واپسی کی امید کر رہے ہیں۔