حکومت کی جانب سے بجلی پیدا کیے بغیر ہی 4 پاور پلانٹس کو ماہانہ 10 ارب روپے ادائیگی کا انکشاف سامنے آگیا۔ سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کپیسٹی پیمنٹس کا ڈیٹا شئیرکرتے ہوئے بتایا کہ مختلف آئی پی پیز کو جنوری سے مارچ 2024 کے دوران ماہانہ 150 ارب روپے ادا کیے گئے، آئی آئی پیز میں سے آدھے 10فیصد سے بھی کم کپیسٹی پر چل رہے ہیں، 4 پاور پلانٹس بجلی پیدا کیے بغیر 10 ارب روپے ماہانہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حلال کی کمائی 40 خاندانوں میں کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کی جاتی ہے، حکومت عوام کے پیسے پرکاروبار نہ کرے، صارفین کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے، ان پاور پلانٹس کو پیسے تب ہی دیےجائے جب بجلی پیدا کریں، نیپرا میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو نمائندگی دی جائے۔
دنیا اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس وقت گھریلو صارفین کو بجلی 60 روپے سے زائد فی یونٹ پڑرہی ہے، کمرشل صارفین کو 80 روپے اور انڈسٹریل صارف کو بجلی کا ایک یونٹ 40 روپے میں مل رہا ہے، پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2 ہزار 300 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں سے 2 ہزار ارب روپے سے زائد کپیسٹی پے منٹس کی مد میں ادا کیے جانے ہیں اور آج ملک میں مہنگی ترین بجلی کی بڑی وجہ یہی آئی پی پیز ہیں، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ملک میں معاشی بحران کی بڑی وجہ ہیں، معاہدوں پر نظر ثانی نہ ہونے کی صورت میں کاروبار ٹھپ اور صنعتیں بند ہونے کا خطرہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 1994ء، 2002ء اور 2015ء کے دوران پاور پلانٹس سے کیے جانے والے معاہدے پورے نظام کیلئے درد سر بن چکے ہیں، ان معاہدوں کے تحت بجلی خریدی جائے یا نہ خریدی جائے اس کی قیمت ہر صورت ادا کرنا پڑتی ہے اور وہ بھی ڈالر میں دینی ہوتی ہے، نیپرا رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ آئی پی پیز کی اوسطاً 47 اعشاریہ 9 فیصد بجلی استعمال کی جا رہی ہے لیکن ان آئی پی پیز کو ادائیگیاں 100 فیصد کی جارہی ہیں۔
ادھر روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث کپیسٹی پے منٹس کا حجم مزید خوفناک شکل اختیار کرنے لگا ہے، 2013ء میں کپیسٹی پے منٹس کی رقم 185 ارب روپے تھی جو 2024ء میں 2 ہزار 10 ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکی ہے، ان 11 سالوں کے دوران آئی پی پیز کو 6 ہزار 300 ارب روپے ادا کیے جا چکے ہیں، سب سے زیادہ کپیسٹی پے منٹ 2015ء کے بعد قائم ہونے والے کوئلے سے چلنے والی آئی پی پیز کو کی جار ہی ہے، اس وقت ملک میں سب سے مہنگی بجلی امپورٹڈ کوئلے سے 60 روپے فی یونٹ تک پیدا ہو رہی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ کپیسٹی پے منٹ کی مد میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی واجب الادا رقم 692 ارب، ونڈ سے چلنے والے آئی پی پیز کی واجب الادا رقم 175 ارب، آر ایل این جی سے چلنے والے آئی پی پیز کی واجب الادا رقم 185 ارب روپے ہے، اسی طرح سولر اور بگاس سے چلنے والے آئی پی پیز کی واجب الادا رقم 112 ارب، نیوکلیئر آئی پی پیز کو واجب الادا رقم 443 ارب روپے ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ آئی پی پیز معاہدے کے تحت رقم تو پوری وصول کرتے ہیں مگر ان کی پیداواری صلاحیت حیران کن طور پر انتہائی کم ہے، نیپرا دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ مالی سال 2022/23ء کے دوران 1200 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت رکھنے والے حب پاور پلانٹ سے صرف 2 اعشاریہ 17 فیصد بجلی ہی پیدا ہوسکی، 421 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت والے روش پاور سے صرف 5 اعشاریہ 7 فیصد اور 1102 میگاواٹ صلاحیت کے کیپکو پاور پلانٹ سے 15 اعشاریہ 7 فیصد بجلی پیدا کی گئی، 1273 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت والے آئی پی پی سے 27 اعشاریہ 7 فیصد پیداوار ہی حاصل کی جا سکی، 1164 میگاواٹ پیداواری صلاحیت والے بھکی پاور پلانٹ سے 56 فیصد جب کہ 1243 میگاواٹ صلاحیت والے بلوکی پاور پلانٹ سے 71 فیصد بجلی ہی پیدا کی گئی۔
نیپرا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023ء میں صرف 25 فیصد تک یوٹیلائزیشن والے آئی پی پیز کو 153 ارب روپے ادا کیے گئے، 50 فیصد تک پیداوار والے آئی پی پیز کو 65 ارب روپے اور 75 فیصد تک یوٹیلائزیشن والے آئی پی پیز کو 214 ارب روپے ادا کیے گئے، نیپرا دستاویزات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ متبادل توانائی والے پاور پلانٹس سے بجلی کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، ہوا سے چلنے والے بجلی گھروں سے سستی بجلی استعمال نہیں کی جارہی مگر ان کی کپیسٹی پے منٹ مسلسل ادا کی جارہی ہے۔
جب کہ پاور ڈویژن حکام بھی بجلی مہنگی ہونے کی سب سے بڑی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ کپیسٹی پے منٹ معاہدوں کو قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر ان معاہدوں پر نظر ثانی نہ ہوئی تو صارفین کو ہر سال بجلی استعمال کیے بغیر ہی اربوں روپے پاور پلانٹس کو دینے ہوں گے، حالیہ دنوں میں بجلی مزید مہنگی ہونے سے سرکلر ڈیٹ کم ہوگا اور نہ ہی بجلی کے نظام میں بہتری آئے گی لیکن صارفین سے لیے جانے والے یہ اربوں روپے پاور پلانٹس کپیسٹی پے منٹس کی مد میں لے اڑیں گے۔