بنگلہ دیش: ڈھاکہ سے ملک کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا‘ٹرانسپورٹ پورے ملک میں بند ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف بنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج جاری‘ملک گیرہڑتال کئی علاقوں سے موبائل ٹیلی فون سروسز اور انٹرنیٹ معطل

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے لیے طلبہ کے جاری احتجاج میں ملک گیر ہڑتال جا رہی ہے طلبہ نے گزشتہ شب ہڑتال کی کال دی تھی پچھلے ایک ہفتے سے ملک بھر میں حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے. اس احتجاج کے دوران اب تک چھ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں بنگلہ دیش کے بڑے انگریزی جریدے”ڈیلی اسٹار“ کی رپورٹ کے مطابق ہڑتال کے دوران جمعرات کی صبح ہی دارالحکومت ڈھاکہ سے ملک کے دیگر علاقوں کا شاہراہوں کے ذریعے رابطہ منقطع ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈھاکہ کے بڑے بس اڈوں پر اکثر سروسز کے کاﺅنٹرز بند ہیں ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کو بسوں کے مالک نے مطلع کیا ہے کہ آج کوئی بھی بس نہ چلائی جائے.

بنگلہ دیش میں زیادہ تنخواہوں اور پرکشش مراعات کی سول سروسز کی ملازمتوں کا نصف سے زیادہ حصہ کوٹے میں چلا جاتا ہے سرکاری ملازمتوں میں 30 فی صد کوٹہ آزادی کے ہیروز کے اہل خانہ کے لیے مختص ہے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا جبکہ 10 فی صد کوٹہ خواتین کے لیے اور 10 فی صد مخصوص اضلاع کے لیے رکھا گیا تھا اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے مجموعی طور پر چھ فی صد کوٹہ مقرر ہے.

طلبہ کا مطالبہ ہے کہ سول سروسز میں اقلیتوں اور معذور افراد کے کوٹے کے سوا تمام کوٹے ختم کیے جائیں طلبہ سرکاری نوکریوں پر باقی تمام اسامیوں پر میرٹ کی بنیاد پر بھرتیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں طلبہ نے جمعرات کو ہڑتال سیکورٹی اداروں کی جانب نے ان کے خلاف کیے گئے ایکشن کے سبب کی ہے طلبہ اب تعلیمی اداروں کو”کرائم فری“ کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں.

ڈیلی اسٹارکا کہنا ہے کہ جمعرات کو دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کی مقامات سے پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ڈھاکہ کے میر پور10 انٹر سیکشن پر حکمران جماعت عوامی لیگ کا جلسہ بھی منقعد کیا گیا لیکن احتجاج میں شریک طلبہ کی بڑی تعداد نے جلسے کے مقام پر پہنچ کر اسے ختم کرا دیا. رپورٹ کے مطابق جلسہ گاہ کے قریب پولیس کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن انہوں نے کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کی مشتعل طلبہ نے عوامی لیگ کے جلسے کے لیے لگائی گئی کرسیاں اور دیگر ساز و سامان بھی توڑ دیا ملک کے کئی علاقوں سے موبائل ٹیلی فون سروسز اور انٹرنیٹ کے معطل ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کی جامعات میں فور جی نیٹ ورک گزشتہ تین دن سے بند ہے۔

بنگلہ دیش میں لگ بھگ 13 کروڑ موبائل فون صارفین ہیں بنگلہ دیش کی لگ بھگ 17 کروڑ آبادی میں تین کروڑ 20 لاکھ افراد روزگار یا تعلیم سے محروم ہیں احتجاج کرنے والے طلبہ کے کوآرڈینیٹر ناہید الاسلام نے گفتگو میں کہا کہ طلبہ احتجاج کے دوران جمعرات کو مکمل ہڑتال کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اس دوران ہسپتال اور ایرجینسی سروسز بحال رہیں گی جب کہ ایمبولینس سروسز کو اجازت ہو گی.

ڈھاکہ میں تین پہیوں والی سائیکل رکشہ چل رہی ہے اور لوگ سفر کے لیے اسی کو استعمال کر رہے ہیں حکام نے گزشتہ روز ہی ملک بھر میں سرکاری اور نجی جامعات کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے حکومت نے ہنگاموں پر قابو پانے والی پولیس اور سرحدوں پر تعینات ہونے والی پیرا ملٹری فورسز ”بارڈر گارڈز“ کو یونیورسٹیوں میں تعینات کر دیا ہے حکام کا موفف ہے کہ یہ تعیناتی ہنگامہ آرائی پر قابو پانے اور امن عامہ کی صورتِ حال بحال رکھنے کے لیے کی گئی ہے.

وزیراعظم شیخ حسینہ کی قیادت میں عوامی لیگ کی رواں برس جنوری میں مسلسل چوتھی بار قائم ہونے والی حکومت کے لیے طلبہ کا حالیہ احتجاج پہلا بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے جنوری میں ہونے والے انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) سمیت حزبِ اختلاف کی اکثر جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بدھ کو خطاب کرتے ہوئے پولیس تشدد سے طلبہ کی اموات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ ماہ سات اگست کو سپریم کورٹ حکومت کی اپیل کی سماعت کرے گی جو اس نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی ہے.

واضح رہے کہ جون میں ڈھاکہ ہائی کورٹ نے 1971 کی جنگ کے ہیرو قرار دیے گئے افراد کے اہل خانہ کے لیے سول سروسز میں 30 فی صد مخصوص کوٹے کو بحال کیا تھا حکومت نے 2018 میں شدید احتجاج کے بعد یہ کوٹہ منسوخ کیا تھا ہائی کورٹ سے کوٹہ دوبارہ بحال ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے اسے عارضی طور پر معطل کر دیا تھا شیخ حسینہ نے اپنے خطاب میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر زور دیا کہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک تحمل کا مظاہرہ کریں.

واضح رہے کہ احتجاج نے شدت اس وقت اختیار کی تھی جب وزیراعظم شیخ حسینہ نے مظاہرین کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تھا شیخ حسینہ 2009 سے بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم اور ملک کی آزادی کی تحریک میں قیادت کرنے والے شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں اقوام متحدہ، امریکہ سمیت انسانی حقوق کے مختلف گروہوں نے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا ہے کہ پر امن مظاہرین کی حفاظت کی جائے پر امن احتجاج ایک بنیادی انسانی حق ہے واضح رہے کہ احتجاج کے دوران مظاہرین اور برسر اقتدار جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کے درمیان بھی جھڑپیں ہوئی ہیں پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سے تین طالب علم ہیں.

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں