ٹرمپ پر حملے میں مارا جانے والا امریکی فلسطینیوں کے خون کا پیاسا نکلا غزہ کی لڑائی کے حوالے سے نامناسب سوشل میڈیا پوسٹس پر کورے کمپریٹور کو شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پرا تھا۔

امریکی ریاست پنسلوانیہ کے شہر بٹلر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے شہری کورے کمپریٹور کو قومی ہیرو بنایا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اُس نے اپنی فیملی کو بچانے کے لیے اپنی جان داؤ پر لگادی۔ میڈیا نے جب اُس کے حوالے سے چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ وہ تو فلسطینیوں کے خون کا پیاسا تھا۔

کورے ری پبلکن پارٹی کا کٹر حامی تھا اور ڈیموکریٹس کو برائے نام بھی پسند نہ کرتا تھا۔ انتہائی دائیں بازو کا قوم پرست ہونے کے ناطے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات سے پوری طرح متفق تھا۔ وہ فلسطینیوں کے قتلِ عام کے بھی حق میں تھا۔

غزہ کی لڑائی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کوے کی طرف سے اپ لوڈ کی جانے والی پوسٹس کا جائزہ لینے سے پتا چلا ہے کہ اُس نے کئی موقع پر غزہ میں فلسطینی فوج کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنے والے فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کورے کی ایک پوسٹ کو 2 کروڑ 40 لاکھ افراد نے دیکھا۔ اُس نے ایک ٹی وی پریزنٹر مارگن کی پوسٹ کا انتہائی ناشائستہ جواب دیا اور اپنی ذہنیت پوری کھول کر پیش کردی۔

مارگن نے سوال اٹھایا کہ جب غزہ میں جنگ رک جائے گی تب فلسطینیوں کا ٹھکانہ کیا ہوگا کیونکہ بیشتر مکانات تو اسرائیلی فوج نے بمباری اور گولا باری کے ذریعے تباہ کردیے ہیں۔ کیا اس حوالے سے پائے جانے والے سوالوں کا اسرائیلی فوج اور حکومت کے پاس کوئی جواب ہے۔

اس سوال کے جواب میں کورے کمپریٹور نے لکھا کہ کچھ نہیں ہوگا، جاپانی بھی تو اپنے پیروں پر کھرے ہوگئے تھے، فلسطینی بھی کسی نہ کسی طور جی ہی لیں گے۔

جاپانیوں کا حوالہ اُس نے دوسری جنگِ عظیم کے آخری دنوں میں جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں کے حوالے سے کیا تھا۔ ان دونوں ایٹم بموں کے گرائے جانے سے لاکھوں افراد موت کا نوالا بن گئے تھے۔ تب سے اب تک تابکاری زدہ بچے پیدا ہو رہے ہیں۔

کورے کس حد تک دائیں بازو کا انتہا پسند تھا اور ڈٰیموکریٹس کو کس قدر ناپسند کرتا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اُس کی بیوہ ہیلن کو امریکی صدر بائیڈن نے تعزیت کے لیے فون کیا تو اُس نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

ہیلن نے بعد میں میڈیا کو بتایا کہ میں نے صدر بائیڈن سے اس لیے بات نہیں کہ میرے شوہر زندہ ہوتے تو وہ بھی اس بات کو سخت ناپسند کرتے کہ میں صدر بائیڈن یا ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی اور فرد سے بات کروں۔

ہیلن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر بائیڈن نے تو خیر فون کرلیا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کورے کی بیوہ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اگرچہ صدر بائیڈن سے فون پر بات نہیں کی تاہم وہ اپنے شوہر کے قتل کے لیے صدر بائیڈن کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتیں کیونکہ یہ قتل بیس سالہ تھامس میتھیو کروکس نے کیا، اُسی کو موردِ الزام ٹھہرایا جانا چاہیے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں