بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے، تمام جامعات کی بندش کی ہدایت

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق حکام کی جانب سے یہ ہدایات بدھ کو جاری کی گئیں، جس کے بعد کئی یونیورسٹیوں نے فوری طور پر اپنی تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دیں۔ تاہم کئی جامعات بشمول ڈھاکا یونیورسٹی فی الحال یہ طے نہیں کر پائی ہیں کہ ان ہدایات پر کیسے عمل کیا جائے۔ ڈھاکا یونیورسٹی ان پرتشدد مظاہروں کا ایک بڑا مرکز ہے۔

بنگلہ دیش: ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے پرتشدد مظاہرے

بنگلہ دیش کے ‘بدنام زمانہ’ جلاّد شاہ جہاں بھوئیاں چل بسے

بنگلہ دیش کے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے تمام پبلک اور نجی جامعات کو ہدایت کی تھی کہ وہ تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دیں اور طلبہ کی رہائش گاہیں خالی کرا لیں۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی جامعات قانونی طور پر خودمختار ہیں اور حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہیں۔

حکام کے مطابق منگل کے روز ملک میں مختلف مقامات پر طلبہ مظاہرین، حکومت کے حامی طلبہ اورپولیس کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ پرتشدد مظاہرے دارالحکومت ڈھاکا کے نواحی علاقوں کے علاوہ جنوب مشرقی شہر چٹاگانگ اور شمالی علاقے رنگ پور میں ہو رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ طلبہ نے حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے رائج کوٹا ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ ان مظاہروں کا آغاز کیا تھا۔

بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگِ آزادی میں شریک افراد کے اہل خانہ کے لیے سرکاری ملازمتوں میں تیس فیصد کوٹا مختص ہے، جب کہ طلبہ اس کوٹا سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پیر کے روز یہ مظاہرے تب پرتشدد ہو گئے جب ڈھاکا یونیورسٹی میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں سو افراد زخمی ہوئے۔

پھر یہ احتجاجی لہر ڈھاکا کے نواح میں قائم جہانگیر نگر یونیورسٹی تک پہنچ گئی اور منگل تک یہ احتجاجی مظاہرے ملک کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گئے۔

اسی تناظر میں بدھ کو ڈھاکا یونیورسٹی میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی جب کہ ڈھاکا اور دیگر اہم شہروں میں سڑکوں پر نیم فوجی دستوں نے گشت کیا۔

یہ بات اہم ہے کہ سن 2018 میں ایک عدالتی حکم نامے پر کوٹاسسٹم کے تحت نوکریوں کی تقسیم کو عارضی طور پر روکا گیا تھا، لیکن گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدلیہ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کوٹا نظام دوبارہ بحال کر دیا تھا، جس کے بعد طلبہ نے احتجاج کا آغاز کر دیا۔

اس کوٹا نظام کے تحت خواتین، معذور افراد اور نسلی اقلیتوں کے لیے بھی ملازمتیں مختص ہیں، تاہم مظاہرین فقط 1971ء کی جنگ میں شریک افراد کے لیے اس کوٹے کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مظاہریں کا کہنا ہے کہ اس کوٹے سے وزیر اعظم حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہ جماعت بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادیکی جنگ میں سرگرم تھی۔

مظاہرین اپنی اس تحریک کو ‘غیرسیاسی‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے منگل کے روز کوٹاسسٹم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جنگ آزادی میں شریک افراد کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، وہ اعلیٰ ترین تکریم کے مسحق ہیں۔ ڈھاکا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم حسینہ واجد کا کہنا تھا، ”اپنے خوابوں کی زندگی کو ایک طرف رکھتے، اپنے خاندان، والدین اور سب کچھ تج کر کہ یہ لوگ جنگ میں شامل ہوئے۔‘‘

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں