ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری کنی نے منگل کے روز شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں نیوز ویک میگزین کو بتایا کہ تہران جوہری معاہدے میں اپنی شرکت کو بحال کرنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
بقا کا خطرہ ہوا تو ایرانی جوہری عسکری نظریہ بدل جائے گا، کمال خرازی
ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے، جب وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
جوہری سرگرمیوں پر تشویش، آئی اے ای اے کے سربراہ ایران میں
واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکہ نے سن 2018 میں ہونے والے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا گیا تھا۔
صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت شروع کی گئی تھی، تاہم واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کافی دنوں سے تعطل کا شکار ہیں۔
ایران کے پاس اسرائیل کو جواب دینے کے طریقے متعدد مگر خطرناک
ایران اب بھی جوہری معاہدے کا حصہ ہے، تاہم امریکی پابندیوں کی وجہ سے اس نے اپنے وعدوں میں تخفیف کر دی ہے۔
باقری کنی نے کیا کہا؟
نیوز ویک کے مطابق باقری کنی نے،خارجہ پالیسی کے حوالے سے کہا کہ تہران جوہری معاہدے میں باہمی شرکت کو بحال کرنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران چین، روس اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کو فروغ دینے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔
ایرانی جوہری تنازعہ، ماکروں اور نیتن یاہو کی ملاقات
باقری کنی کا کہنا تھا کہ ایران غزہ جنگ کے پیش نظر اسرائیل کے خلاف مزید کارروائی کا بھی مطالبہ کرے گا۔
ایرانی جوہری معاہدے کو ‘مردہ’ سمجھیں، امریکی صدر جو بائیڈن
گزشتہ ہفتے بائیڈن انتظامیہ نے کہا تھا کہ امریکہ اپنے نئے صدر کے تحت ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
بائیڈن کی ایران کے خلاف مشرق وسطیٰ کو متحد کرنے کی کوشش
واضح رہے کہ مئی میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی موت کے بعد باقری کنی قائم مقام وزیر خارجہ بنے تھے۔
ایران نے جوہری سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے دستاویزات چرائیں، اسرائیل
اس کے بعد ہونے والے صدارتی انتخابات میں مسعود پزشکیان کو نیا صدر منتخب کیا گیا ہے۔
پزشکیان قدرے ایک اعتدال پسند رہنما خیال کیے جاتے ہیں، جنہوں نے ایک عملی خارجہ پالیسی کو فروغ دینے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ سن 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل عالمی طاقتوں کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔