سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں حکومت کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے پشاو ر ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قراردیدیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا یا، فیصلہ 8 کی اکثریت کا ہے ،پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور رہے گی،چیف جسٹس

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے پشاو ر ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قراردیدیا،مخصوص نشستیں حکومت کو دینے کافیصلہ کالعدم قرار دیدیاگیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ فیصلہ 8کی اکثریت کا ہے ،پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور رہے گی ۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کیخلاف ہے۔انتخابی نشان کا نہ ملنے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روک سکتا۔فیصلہ 5-8کے تناسب سے جاری کیاگیا۔فیصلہ منصور علی شاہ نے لکھا ہے ۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کوالیکشن سے باہرنہیں کرسکتا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی کسی بھی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان نہیں لیا جا سکتا۔

فیصلے میں پی ٹی آئی خواتین اورغیرمسلموں کی مخصوص نشستوں کی حقدار قرار دیا گیا۔پی ٹی آئی مخصوص نشستیںاور خواتین کی نشستوں کیلئے 15روز میں درخواست کر سکتی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کوقومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشست ملے گی۔فیصلے میں 39 ارکان کو پی ٹی آئی کا منتخب رکن قومی اسمبلی قراردے دیا گیا۔ باقی 41 ارکان 15دن میں بیان حلفی جمع کراکر پی ٹی آئی کا حصہ بن سکتے ہیں۔

فیصلے میں قرار دیا گیا کہ الیکشن کمیشن، پی ٹی آئی کو وضاحت چاہیے توعدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نےاضافی نوٹ پڑھ کرسنایا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کردی۔سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر، اٹارنی جنرل منصور اعوان اور پی ٹی آئی رہنماو¿ں کی موجودگی میں فیصلہ سنایا گیا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی کاز لسٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کیس کا فیصلہ 12 جولائی کی صبح 9 بجے سنایا جائے گا تاہم بعد میں فیصلہ سنانے کا وقت تبدیل کر کے دوپہر 12 بجے رکھ دیا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر 3 روز قبل فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

بتایاگیا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی ریگولر بنچ کے ساڑھے نو بجے فیصلہ سنانے کی کاز لسٹ جاری کی گئی تھی، تاہم ازاں بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پہ نئی کاز لسٹ جاری کی گئی۔جمعرات کے روز چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت 13 رکنی ججز کا مشاورتی اجلاس ہوا اسی طرح بدھ کے روز بھی تقریباً ایک گھنٹے سے زائد وقت تک مشاورتی اجلاس جاری رہا تھا۔

الیکشن کمیشن نے چار ایک سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کیا تھا جس پر سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ مارچ میں پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی اپیل خارج کردی۔پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تو معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا۔

رواں سال مئی میں معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 6مئی2024کو پہلی سماعت میں ہی پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کردیا۔جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 6 مئی کو ابتدائی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کرتے ہوئے عمل درآمد روک دیا تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی تشریح کا نکتہ اٹھانے پر تین رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے سپریم کورٹ میں دستیاب تیرہ ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آئینی و قانونی تشریح کے سوالات مرتب کرتے ہوئے لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل کمیٹی اجلاس میں اکثریتی فیصلے سے فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا اور پھر 13 رکنی فل کورٹ نے 6طویل سماعتوں کے بعد 9جولائی کو سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 جولائی کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے تھے کہ الیکشن کمیشن نے خود آئین کی سنگین خلاف ورزی کی۔ کیا بنیادی حقوق کے محافظ ہونے کے ناتے ہماری ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کریں؟۔سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دئیے تھے کہ تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔

27 جون کو سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے اہم ریمارکس دئیے تھے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔22 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مو¿قف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا۔

سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لئے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔

جبکہ اس سے قبل 31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دے دیا گیاتھا۔4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔جبکہ اس سے قبل3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر ہوگیا تھا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں