اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند گروپوں کا اتحاد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں اب ”سب سے بڑا دہشت گرد گروپ” ہے اور سرحد پار سے پاکستان میں حملے کرنے کے لیے اسے افغانستان کے طالبان حکمرانوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔
پاکستان: تین واقعات میں پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک
رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کو اب القاعدہ جیسے دہشت گرد نیٹ ورک سے بھی آپریشنل اور لاجیسٹک مدد مل رہی حاصل ہے
‘افغانستان میں ٹی ٹی پی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے’، پاکستان
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے اس حوالے سے بدھ کے روز اپنی جائزہ رپورٹ ایک ایسے وقت جاری کی، جب ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے اور حالیہ ہفتوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
رپورٹ مزید کیا کہتی ہے؟
دہشت گرد گروپ داعش، القاعدہ اور طالبان کو مانیٹر کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم نے اپنی 15ویں رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کی ہے۔
خیبر پختونخوا میں بم دھماکے میں سات پاکستانی فوجی ہلاک
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”ٹی ٹی پی افغانستان میں اب بڑے پیمانے پر سرگرم عمل ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے اکثر افغانوں کو استعمال کرتی ہے۔
” رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اب دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان کے چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درمیان جنگجو ہیں، جو افغان طالبان کی سرپرستی میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے پوری طرح سے آزاد ہیں۔
افغانستان بشام حملے کے منصوبہ سازوں کو حوالے کرے، پاکستان کا مطالبہ
رپورٹ کہتی ہے کہ افغانستان کے طالبان حکمراں، ”ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر نہیں دیکھتے اور دونوں میں بہت قربت ہے۔
ان کے لیے ٹی ٹی پی پر واجب الادا قرض بہت اہم ہے۔”
شمالی وزیرستان میں دو خونریز حملے، سات سکیورٹی اہلکار ہلاک
رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ”ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف حملے تیز کر دیے ہیں، خاص طور پر سن 2021 میں 573 حملوں سے بڑھ کر سن 2022 میں حملوں کی تعداد 715 تک پہنچ گئی، جبکہ سن 2023 میں حملوں کی تعداد 1,210 ہو گئی۔ یہی رجحان 2024 میں بھی جاری ہے۔
” رپورٹ میں رواں برس 28 مئی تک کے اعداد و شمار بھی پیش کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے اسلام آباد کے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ کابل پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس طرح کے الزامات کو بار بار دہرایا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں حملے، تین دنوں میں سات کسٹم اہلکار ہلاک
یہ رپورٹ پاکستان کی اس تشویش کی بھی تائید کرتی ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد رات میں دیکھنے کی صلاحیت والے آلے سمیت نیٹو کے ہتھیار ٹی ٹی پی کو فراہم کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر دہشت گردانہ حملوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
ٹی ٹی پی کے القاعدہ سے روابط
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کے وہ علاقائی کارندے، جن کے طالبان سے طویل مدتی تعلقات رہے ہیں، پاکستان کے اندر ہائی پروفائل دہشت گردانہ حملوں کو انجام دینے کے لیے ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے، حکومتِ پاکستان
طالبان نے اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ پر کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا، تاہم ماضی میں وہ ایسی رپورٹس کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کے کارندوں کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے، جو دہشت گرد تنظیم نے ننگرہار، قندھار، کنڑ اور نورستان جیسے متعدد سرحدی صوبوں میں قائم کیے ہیں۔
مردان میں چھاپہ: ایس پی اور دو طالبان عسکریت پسند مارے گئے
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ایک رکن نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ القاعدہ کے ساتھ ”زیادہ تعاون” ٹی ٹی پی کو ”غیر علاقائی” گروپ میں تبدیل کر سکتا ہے، یعنی اسے خطے سے باہر بھی وسعت دے سکتا ہے۔
اسلام اسٹیٹ خراسان اور ٹی ٹی پی
رپورٹ کے مطابق خطے میں ایک اور سرگرم دہشت گرد گروپ ‘اسلامک اسٹیٹ خراسان’ (آئی ایس -کے) ہے اور اس سے وابستہ تنظیموں کے چار ہزار سے چھ ہزار کے درمیان جنگجو ہونے کا تخمینہ ہے۔
ایک اور انداز کے مطابق ان کی تعداد دو ہزار سے ساڑھے تین ہزار کے درمیان ہے۔
کوہاٹ: چیک پوسٹ پر حملہ، تین پولیس اہلکاروں سمیت چار ہلاک
رپورٹ کے مطابق اس گروپ کے بہت سے لوگوں نے مبینہ طور پر وزارت داخلہ، دفاع اور انٹیلیجنس کی مرکزی وزارتوں میں دراندازی کر لی ہے اور وہ ٹی ٹی پی جیسے دیگر گروپوں میں بھی خفیہ طور پر اپنے ممبران شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کابل کے طالبان کا دعوی ہے کہ اس کی کارروائیوں نے آئی ایس کے اہم اہلکاروں کو ملک کی سرحدوں کے پار دھکیل دیا ہے اور اسی حوالے سے رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس نقل مکانی سے پاکستان، ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں میں سکیورٹی کی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح افغانستان میں آئی ایس کے نے اب اپنی موجودگی کو محدود کیا ہے اور اپنی بیرونی کارروائیوں کو وسعت دی ہے۔ اس نے اپنے ”ماہر کارندوں اور خودکش بمباروں کو یورپ، روسی فیڈریشن اور دیگر پڑوسی ممالک کی جانب بڑھنے کی ترغیب دی ہے۔”