یورپی یونین کے سب سے بڑے، ترقی یافتہ اور طاقتور ملک میں عام انتخابات کا مہینہ

جرمنی کو نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر میں اس کی میں مضبوط معیشت کی وجہ سے مضبوط ترین ملک سمجھا جاتا ہے اور اس کی پارلیمنٹ میں ہونے والے فیصلے دنیا پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس ماہ رواں میں جرمنی کے شہر اقتدار برلن  میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں لیکن یہ تیار یاں ان تیاریوں سے یکسر مختلف ہوتی ہیں جو کہ ہمارے ملک میں عام انتخابات کے موقع پر ہوتی ہیں۔

یہاں انتخابی مہم بڑے بڑے جلسے جلوس کرکے نہیں چلائی جاتی، بلکہ شہر بھر میں یا یوں کہیں کہ ملک بھر میں گلی کوچوں میں بڑے بڑے بورڈوں  پر انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کی تصاویر ان کی پارٹی کے نام کے ساتھ چسپاں کرکے انھیں کھڑا کردیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دوسرا طریقہ تمام شہر کے کھمبوں پر ان کے اشتہارات لگا دے جاتے ہیں۔

انتخابات میں حصہ لینے والے افراد اپنے حلقے میں جاکر وہاں کے لوگوں سے ملتے ھیں، ان کو اپنا پروگرام پیش کرتے ھیں اور بات چیت کرکے لوگوں کو  اپنی پارٹی کو ووٹ دینے کی طرف مائل کرتے ھیں۔

ان الیکشن میں نہ صرف جرمن عوام خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے بلکہ جرمن شہریت رکھنے والے غیر ملکی افراد بھی اس دن اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کو بھی معلوم ہے کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ انہی انتخابات کے نتائج پر مبنی ہے۔
جرمنی میں گزشتہ 16 سال سے کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (سی ڈی یو) کی حکومت ہے ۔ حالیہ دنوں میں اس کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے  میں آئی ھے۔

اس کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اب جرمن قوم سیاست میں تبدیلی چاہتے ہے اور
چونکہ  ان 16 سالوں میں ایک نئی نسل پروان چڑھ چکی ہے جس کا سوچنے اور  سمجھنے کا ذاویہ تھوڑا مختلف ہے اور ان کی ترجیحات پرانی نسل سے کچھ الگ ہیں،اور اب وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔
اس وقت جرمنی میں بہت سی سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے الیکشن لڑیں گے۔

جن میں پانچ  سے چھ جماعتیں  قابل ذکر  ھیں اور عوام میں مقبولیت رکھتی ہیں ۔ جو کہ
کرسٹ ڈیموکریٹک ،
سوشل ڈیموکریٹک،
فری ڈیموکریٹک،
الٹرنیٹو فار جرمنی ،
گرین اور لیفٹ ہیں۔
ان انتخابات کے ساتھ ہی جرمن چانسلر انجیلا میرکل کا سولہ سال حکمرانی کا سورج بھی غروب ہو جائے گا۔
اس بار بھی اگر  انتخابات میں ان کی جماعت  جیتی تو ان کا امیدوار آرمن لاشیٹ چانسلر  کے عہدے پر براجمان ہو گا۔

بہر حال حتمی نتائج کیا ہوں گے کوئی نہیں جانتا۔
ہر جرمن شہری اٹھارہ سال کا ہوتے ھی خود بخود  یہاں کے  عام انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے  والوں کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اس سال 2021 کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد ساٹھ عشاریہ چار ملین ہے۔
عام انتخابات میں یہاں دو طریقوں سے جرمن شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے ایک بذریعہ ڈاک ،اور دوسرا خود اپنے علاقے کے پولنگ اسٹیشن پر جا کر جس طرح پاکستان میں ہوتا ہے۔یہ پولنگ اسٹیشن انتہائی محفوظ اور یقینی ہوتے ہے، اور یہاں پر دھاندلی کا امکان تقریبا زیرو فیصد ہوتا ہے۔
پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنے والے کا شناختی کارڈ چیک کیا جاتا ہے تاکہ یہ یقین کیا جاسکے کہ ووٹ اسی کا ہے۔
تمام دنیا کی طرح یہاں بھی ووٹ ایک پردے کے پیچھے جا کر ڈالا جاتا ہے ،جرمنی میں ہر شخص کے پاس دو حق رائے دہی ہوتے ہیں۔پہلے پیپر پر نشان لگانے کے لیے دو خانے ہوتے ہیں، پہلے نشان کے ساتھ وہ  اپنے حلقے کے امیدوار کا انتخاب کرتا ہے جو کہ جیت کر پارلیمنٹ کا ممبر بننا ہے،
جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے ،
دوسرا ووٹ کسی بھی جماعت کو براہ راست منتخب کرنے کے لئے دیا جاتا ہے جو کہ ہمارے ملکوں میں نہیں ہوتا۔
کسی بھی سیاسی جماعت کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد سے  اس کی کامیابی اور ناکامی کا پتہ چلتا ہے۔ پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے  کسی بھی سیاسی جماعت کو کم سے کم پانچ فیصد ووٹروں  کی حمایت چاہیے ہوتی ہے۔
گزشتہ ستر سالوں سے جرمنی میں  ووٹنگ کے لیے کاغذ کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہاں بھی ووٹ ڈالنے کے اوقات صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک ہوتے ہیں۔
اور ساتھ ہی ساتھ ہر حلقے میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی بھی جاری رہتی ہے۔
اس طرح تقریبان 95 فیصد تک نتائج کا اعلان شام چھ بجے تک کر دیا جاتا ہے۔

اس سال انتخابات میں پوری جرمنی سے نو سو ننانوے حلقے ہیں ہر حلقے کی منصوبہ بندی اس طرح کی گئی ہے کہ ہر حلقے میں دو لاکھ پچاس ہزار افراد آئیں ،جہاں براہ راست امیدوار  کا انتخاب کیا جائے گا  اور تقریبا اتنی ہی سیٹیں پارٹی کو پڑنے والے براہ راست ووٹوں سے پر دی جاتی ہیں۔ ان سیٹوں پر آنے والے لوگوں کے ناموں  کی لسٹ ھر پارٹی پہلے سے شائع کر دیتی  ھے اور الیکشن  کمیشن میں جمع کرا دیتی ھے-

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں