عورت کے جنسی تقاضے بھی مردوں کی برابری کا حق رکھتے ہیں ۔جب ریاست اس سلسلہ میں کوئی قانون بناتی یا آرڈر پاس کرتی ہے تو صرف مردوں تک اسکی تخصیص کرنا جمہوری ائینی خلاف ورزی کا ثبوت بن جاتی ہے۔ابھی حال ہی میں جیلوں میں قید شادی شدہ مرد قیدیوں کے لئے ارڈر کیا گیا ہے جس کے مطابق پنجاب میں قیدیوں کو بیوی ساتھ رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے ، قیدیوں کو بیوی کے ساتھ جیل کے فیملی ہومز میں رہائش کی سہولت دی گئی ہے۔
اس حوالے سے محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے ایک اعلامیے بھی جاری کیا گیا ہے ، اعلامیہ کے مطابق بیوی کو قیدی خاوند کے ساتھ ہر 3 ماہ بعد 3 روز تک رہنے کی اجازت ہو گی جب کہ اس دوران قیدی کا 5 سال تک کا بچہ بھی اپنے والدین کے ساتھ رہ سکے گا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آرڈر صرف مرد قیدیوں کے لئے کیوں کیا گیا ہے۔
جیلوں میں قید شادی شدہ عورتوں کو اس حق سے محروم کیوں رکھا گیا ہے۔
جیلوں میں بند کئی خواتین بچے بھی پیدا کرتی ہیں تو اس حوالے سے قیدی خواتین کے انسانی فطری تقاضوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔اس حوالے سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ قیدی خواتین کے ساتھ جیل کا عملہ جنسی بدسلوکی بھی کرتا ہے اور اسکے بدلے اسکو سزا میں ریلیکس بھی کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں سوچا جائے کہ جو فیصلہ مرد قیدیوں کے مسائل کو دیکھ کر کیا گیا ہے یہ مسئلہ خواتین کا بھی ہو سکتا ہے۔
جنسی تقاضا دونوں کے یکساں ہوسکتا ہے۔پنجاب کی جیلوں مٰں اس وقت 753 خواتین قید ہیں جن میں سے 200سے زیادہ باقاعدہ سزا یافتہ ہیں۔جبکہ انڈر ٹرائل وومن کی تعداد ساڑھے چار سو کے قریب ہے۔ان کے ساتھ ان کے بچے بھی قید ہیں ۔جیل کو اگر اصلاح خانہ بنانا ہے اور قیدیوں کو بھی انسانی حقوق دینے ہیں تو اس ضمن میں خواتین کو نظر انداز کرنا ظلم ہوگا۔