دنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف سے عائد پابندیوں سے متاثر ایران میں یہ انتخاب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ میں جنگ جاری ہے اور خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔
انتخابات میں تقریباً61 ملین اہل ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ملک کی طاقت ور شوریٰ نگہبان نے صرف چھ امیدواروں کو اپنی قسمت آزمانے کی اجازت دی ہے۔
ان میں صرف مسعود پزشکیان کو اصلاح پسند کہا جاتا ہے بقیہ دیگر پانچ امیدوار قدامت پسند نظریات کے حامل ہیں۔
جمعے کو ہونے والا ایرانی صدارتی انتخاب، چھ امیدوار کون کون؟
ایران کے صدارتی امیدواروں کے مابین پہلا مباحثہ
دیگر امیدواروں میں پارلیمان کے موجودہ اسپیکرمحمد باقر قالیباف، ملک کے جوہری پروگرام میں ایران کے سابق اعلیٰ مذاکرات کار سعید جلیلی، ابراہیم رئیسی کے نائب امیر حسین غازی زادہ ہاشمی، سابق وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی، تہران کے موجودہ میئر علی رضا زاکانی شامل ہیں۔
اپنے حریفوں میں نسبتاً سب سے اعتدال پسند سمجھے جانے والے انہتر سالہ پزشکیان نے سن 2021 میں بھی صدارتی الیکشن لڑنے کی کوشش کی تھی لیکن شوریٰ نگہبان نے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
چھ علماء اور چھ فقہاء پر مشتمل انتہائی طاقت ور آئینی ادارے شوریٰ نگہبان درخواست دہندگان کی جانچ پڑتال کے بعد پیشہ ورانہ قابلیت اور اسلامی جمہوریہ ایران سے ان کی نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر امیدواروں کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے۔
اس مرتبہ اس نے سابق صدر محمود احمدی نژاد اور سابق اسپکر علی لاریجانی کی درخواستیں مسترد کردیں۔
ابتدائی نتائج کل صبح تک متوقع
صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ آج صبح مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے شروع ہوگئی۔ ملک بھر میں تقریباً 59 ہزار پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں، ان میں سے بیشتر اسکولوں اور مساجد میں ہیں۔
ایران کا نیا صدر کون ہو گا؟
پولنگ تقریباً دس گھنٹے تک جاری رہے گی لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ووٹنگ کے وقت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پولنگ کے ابتدائی نتائج ہفتے کی صبح تک آجانے کی امید ہے جب کہ حتمی نتائج اتوار تک متوقع ہیں۔
اگر کوئی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ہے تو الیکشن کا دوسرا دور پانچ جولائی کو ہو گا۔ یہ مقابلہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سن 2005 کے بعد صرف دوسری بار ہو گا۔
اصل طاقت سپریم لیڈر کے ہاتھوں میں
ایران کا نیا صدر خواہ جو بھی منتخب ہو ایرانی آئین کی رو سے طاقت کا اصل مرکز سپریم لیڈر ہوتا ہے۔ نئے صدر کو بھی موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے سیاسی فیصلوں کو حکومتی ذرائع کے توسط سے نافذ کرنا ہو گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس ہفتے عوام سے نئے صدر کے انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا، “سب سے زیادہ اہل امیدوار وہ ہونا چاہئے جو سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے اصولوں پر یقین رکھتا ہو،” جس نے امریکی حمایت یافتہ باشاہت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگلے صدر کو “ایران کو غیر ممالک پر انحصار کے بغیر آگے بڑھنے” کے لیے کام کرنا چاہئے۔ تاہم خامنہ ای نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایران کو “دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کرنے چاہئیں۔”