پولیس اہلکار کا قتل، جرمنی نے افغان باشندوں کو ملک سے نکالنے کا ارادہ ظاہر کردیا عموماً جرمنی لوگوں کو ان ممالک میں واپس نہیں بھیجتا جہاں ان کی جان کو خطرہ ہو

جرمنی ان افغان تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجنے پر غور کر رہا ہے جو ملکی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔

جرمنی میں گزشتہ ہفتے چاقو حملے میں ایک پولیس افسر کی ہلاکت کے بعد جرمن وزارت داخلہ کی جانب سے ہجرت پر مزید سخت لائحہ عمل اختیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

روئٹرز کے مطابق اس طرح کا اقدام متنازع ہوگا کیونکہ جرمنی لوگوں کو ان ممالک میں واپس نہیں بھیجتا جہاں ان کی جان کو خطرہ ہو۔

2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی نے افغانوں کی ملک بدری بند کر دی تھی۔

جرمن وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ کئی مہینوں سے اس معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور جلد از جلد فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

وزیر داخلہ نینسی فیزر نے صحافیوں کو کہا کہ ’یہ بات میرے لیے واضح ہے، جو لوگ جرمنی کی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ ہیں، انہیں فوری طور پر ملک بدر کیا جانا چاہیے‘، اس میں افغانستان اور شام میں لوگوں کو بھیجنا بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا، ’میں اس بات پر بھی پوری طرح اٹل ہوں کہ جرمنی کے سکیورٹی مفادات واضح طور پر ان متاثر کرنے والوں کے مفادات سے زیادہ ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پہلے ہی دوسرے ممالک میں ملک بدری کو تیز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

جمعے کو جرمنی کے شہر مانہیم میں ایک اسلام مخالف تقریب کے دوران افغانستان سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ نوجوان کے چاقو سے حملے میں چھ افراد شدید زخمی ہوئے تھے اور ایک پولیس اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔

حملہ آور کو گولی مار کر زخمی کیا گیا تھا، جو جرمنی میں غیر قانونی طور پر مقیم نہیں تھا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں