نیٹ میٹرنگ: آئی پی پیز کے بجائے پاکستانی عوام پر دباؤ ڈالنے کی حکومتی پالیسی ملک میں رہائشی اور کمرشل دونوں ملا کر میں سولر انسٹالیشن سے 2 ہزار میگاواٹ حاصل ہوتا ہے

توانائی کی پالیسی ہمیشہ ناکام ہونے کی وجہ سے پاکستان کئی مسائل میں گھیرا رہتا ہے۔ ایک ایسی دلدل میں پھنسا رہتا ہے جس سے نکلنے کی جتنی کوشش یا جدوجہد کرے اس قدر دھنستا چلا جاتا ہے۔ یہ مضمون پاکستان کے توانائی سے متعلق خدشات اور قابل تجدید توانائی کے حوالے سے۔ گرمی کی شدید لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ساتھ ہی نیٹ میٹرنگ بجلی کے بائی بیک ریٹ میں کمی پر بحث بھی زیر بحث ہے اور اخباروں کی شہ سرخیاں بھی۔

بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق نیٹ میٹرنگ کا مقصد چھت پر سولر کی تنصیبات کو ترغیب دینا، گھر اور کاروباری مقامات کو اپنی بجلی پیدا کرنے اور اضافی بجلی گرڈ کو واپس فروخت کرنے کی جانب ایک قدم تھا۔

سولر پینل پر عائد ٹیکس اور ڈیوٹی ختم ہونے سے قیمتوں میں کتنا فرق آئے گا؟

تاہم اب پے بیک کے نرخوں میں مجوزہ کٹوتی نے شمسی توانائی کے صارفین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے جو شمسی توانائی کو بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں کو کم کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ بائی بیک کی شرح میں کمی شمسی توانائی کی ترقی میں نمایاں طور پر رکاوٹ نہیں بنے گی لیکن اس حوالے سے وسیع تر مضمرات پر غور کرنا ضروری ہے۔

سی ای او رینیو ایبلز فرسٹ ذیشان اشفاق کہتے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ کی پالیسی کو مکمل طور پر ختم کرنا ایک رجعتی قدم ہے اور ٹکنالوجی کے شعوری طور پر مسترد ہونے کی نمائندگی کرتا ہے۔

ٹیکسٹ پیغام کے ذریعے انہوں نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ’ہمارے پالیسی سازوں کے درمیان کسی بھی نئی چیز کا خوف رہتا ہے اور وہ لوگوں کو حکومتی سطح پر تشکیل دی جانے والی پالیسی کو اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ اس کے نتیجے میں عوام پر مالی اثرات کیا ہوں گے۔

سولر پینل کے ریٹ اپریل کے بعد مئی میں مزید گر گئے

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں نئے نیٹ میٹرنگ صارفین کے لیے ٹیرف میں بتدریج نظر ثانی کرنا ہی معقول فیصلہ ہوگا تاہم اس طرح کی نظرثانی کو سابقہ طور پر لاگو کرنے سے حکومت کی ساکھ پر مثبت اثر نہیں پڑتا، جو پہلے ہی تیزی سے زوال کا شکار ہے۔

ذیشان اشفاق نے مزید کہا کہ “گزشتہ 7 سے 8 برس میں 10 گیگا واٹ سے زیادہ کی صلاحیت کے ساتھ درآمدی ایندھن پر چلنے والے پاور پلانٹس کا اضافہ اس طرح کی پابندیوں کا ثبوت ہے۔

توانائی کے شعبے کے ماہر معین ایم فوڈا کے بزنس ریکارڈر کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں کہا گیا کہ حکومت سولر آئی پی پیز سے بجلی کا ایک یونٹ اوسطاً 38.59 روپے میں خرید رہی ہے۔ دریں اثنا چھتوں پر نصب سولر پروڈیوسرز سے اس کی قیمت صرف 22.9 روپے ہے۔ حکومت اس شرح کو بھی کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ملک میں رہائشی اور کمرشل دونوں ملا کر میں سولر انسٹالیشن سے 2 ہزار میگاواٹ حاصل ہوتا ہے۔ ان تنصیبات سے اوسطاً 500 میگاواٹ ڈسکوز کو فراہم ہوجاتے ہیں اور تقریباً تین چوتھائی حصہ رہائشی اور کمرشل والے خود استعمال کرلیتے ہیں۔

اس اعتبار سے نیٹ میٹرنگ سے صرف 85 میگا واٹ بجلی اضافی ہے جو کہ نیشنل گرڈ میں 28 ہزار کلو واٹ کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔

صرف 2 لاکھ میں پنکھے اور فریج سولر پر منتقل ہونے لگے

گھریلو اور چھوٹے کاروباروں کو مالیاتی اقدامات کے ذریعے سولر انفراسٹرکچر کو اپنانے کے لیے بااختیار بنانا اور سنگل فیز نیٹ میٹرنگ کی سہولت قابل تجدید توانائی تک رسائی کو یقینی بنا سکتی ہے۔

خود انحصاری اور تکنیکی اختراع کو فروغ دینے کے لیے سولر پینلز اور انورٹرز کی گھریلو مینوفیکچرنگ کے لیے طویل مدتی حکمت عملی ضروری ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں