جرمن کاروباری کمپنیاں چین سے جاپان کیوں منتقل ہو رہی ہیں؟

ایک حالیہ سروے میں حصہ لینے والی جرمن کمپنیوں میں سے 38 فیصد نے بتایا کہ وہ اب اپنی پیداواری سہولیات کو چین سے جاپان منتقل کر رہی ہیں۔ اس رجحان کے پیچھے بنیادی طور پر اقتصادی، سیاسی اور سماجی استحکام کا عمل دخل ہے۔

اس سروے رپورٹ میں اس سے ایک ہفتہ قبل جاپان کی ایکسٹرنل ٹریڈ آرگنائزیشن کی طرف سے جاری کردہ ایک تحقیق کے نتائج کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔

اس پہلی تحقیق کے نتائج میں کہا گیا تھا کہ جاپان ان غیر ملکی کمپنیوں کے لیے ایک ُپرکشش مقام ہے جو جغرافیائی، تجارتی اور مالیاتی غیر یقینی صورتحال سے بچنا چاہتی ہیں۔

یہ مطالعہ جاپان میں جرمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور اکاؤنٹنگ کی ایک عالمی کمپنی ”کے پی ایم جی‘‘ نے کروایا تھا، جس میں 164 فرموں نے 27 مارچ کو جاری کیے گئے سروے میں اپنی آرا کا اظہار کیا تھا۔

اس میں بتایا گیا تھا کہ جاپان ان غیر ملکی کمپنیوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے جو جغرافیائی، تجارتی اور مالیاتی غیر یقینی صورتحال سے بچنا چاہتی ہیں۔

فوجیتسو کے ”گلوبل مارکیٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ کے چیف پالیسی اکانومسٹ مارٹن شُولس کا کہنا ہے، ”جرمن کمپنیوں کی طویل عرصے سے چین پر بہت زیادہ توجہ مرکوز رہی ہے کیونکہ چین میں لیبر کے اخراجات بہت سستے ہیں اوریہ ایک اہم اور بڑھتی ہوئی مارکیٹ ہے۔

مارٹن شُولس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،”چیلنجز ہر طرف ہیں اور یہ رجحان بدلتا جا رہا ہے۔‘‘ ان کے بقول ”اہم بات یہ ہے کہ کمپنیوں کے لیے بڑھتے ہوئے سیاسی اور جغرافیائی سیاسی مسائل ہیں، جن پر انہیں غور کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ خدشات کہ فرموں کے لیے چین سے امریکہ کو اشیاء کی برآمد زیادہ مشکل ہو جائے گی۔‘‘

چین امریکہ کشیدگی

واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی تنازعات حالیہ برسوں میں مزید بگڑے ہیں، امریکہ چین کو جدید ترین ٹیکنالوجیز، خاص طور پر مائیکرو چپس کے حصول سے روکنے کا خواہشمند ہے۔

ان خدشات کو آنے والے سال کے اوائل میں امریکہ میں صدارتی انتظامیہ کی تبدیلی سے تجارتی پابندیوں، محصولات اور پابندیوں کے امکانات سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔

شولس کا کہنا ہے کہ جرمن کمپنیاں امریکہ اور چین کے درمیان کسی بھی ممکنہ تجارتی جنگ میں ملوث ہونے کے خطرے کو کم کرنا چاہتی ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے کچھ اقدامات کیے بھی ہیں اگرچہ یہ خطرات مکمل طور پر ختم نہیں ہو پائے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا،”چین میں لاگتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ چینی معیشت کی تعمیر نو کے دوران اس کا مستقبل کیا ہو گا۔‘‘

جاپان ایک مستحکم انتخاب

فوجیتسو کے ”گلوبل مارکیٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ کے چیف پالیسی اکانومسٹ مارٹن شولس کا کہنا ہے کہ جاپان نہ صرف اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم ہےبلکہ یہاں کی کمپنیاں ایشیا کے دیگر ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ بہت اچھی طرح جڑی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا،” جاپان سپلائی چین کے ساتھ قریب سے مربوط ہے اور یہ شراکت داری کے لیے بہت اہم ہے۔‘‘

معروف جرمن مینوفیکچرنگ کمپنی ”بوش‘‘ کی جاپان میں قائم شاخ کے صدر کلاؤس میڈر نے کہا ہے کہ چین اور جاپان دونوں کے پاس اس اہم سرمایہ کاری کی زبردست وجوہات موجود ہیں۔ چین کاروں کی دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے اور جاپانی آٹوموبائل کمپنیاں اب بھی عالمی مارکیٹ کے سب سے بڑے حصے پر قابض ہیں۔

بوش کا پیداواری اصول یہ ہے کہ مقامی مارکیٹ کے لیے مقامی طور پر پیداوار ہونی چاہیے۔ میڈر نے کہا کہ مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے دونوں ممالک میں مینوفیکچرنگ کی سہولیات یکساں طور پر اہم ہیں۔

جاپان کی صنعتی روایت

جاپان میں جرمن چیمبر آف کامرس کے سی ای او مارکوس شوئرمین نے مذکورہ مطالعے کے نتائج کے بارے میں کہا کہ یہ ”ایشیا کے سب سے قدیم صنعتی ملک‘‘ کے ساتھ فرموں کے روابط کی اہمیت اور یہاں کی بنیاد پر انتظامی افعال کے بڑھتے ہوئے رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔

سروے میں حصہ لینے والی 90 فیصد سے زیادہ فرموں نے کہا کہ استحکام خاص طور سے معاشی استحکام، کاروباری تعلقات کا استحکام اور حفاظت اور سماجی استحکام ، جاپان میں رہنے کے لیے ان کے بنیادی محرکات تھے۔ اُس کے بعد اہمیت کوالیفائیڈ یا اہل افرادی قوت اور جدید انفراسٹرکچر کی رہی ہے۔ جمہوری اصولوں پر مبنی مستحکم سیاسی ماحول اور املاک دانش کے قانونی تحفظ کو بھی اہم وجوہات کے طور پر بیان کیا گیا۔

مارکوس شوئرمین کے بقول،”علاقائی خریداری اور سورسنگ جاپان میں آسانی سے کی جا سکتی ہے اور یہاں بہت سے کلیدی عالمی کھلاڑی موجود ہیں۔ اس طرح کمپنیوں کے لیے اپنے علاقائی انتظامی کاموں کے لیے کسی مقام کے بارے میں سوچتے ہوئے ان سب باتوں کو مدنظر رکھنا بہت معقول طرز عمل ہے۔‘‘

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں