تقریباً 63 ملین افراد ترکی کے 81 شہروں اور میونسپلٹیوں میں میئروں کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ یہ خاص طور پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے لیے ”تاریخی‘‘ بلدیاتی الیکشن ہے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ یہ ان کے ”آخری انتخابات‘‘ ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریاں اب نئی نسل کو منتقل کرنے کے خواہاں ہیں۔
ملکی آئین کی وجہ سے ترک صدر ایردوآن آئندہ چار برس کے بعد اقتدار سے الگ ہونے کے پابند ہیں۔ لیکن ترک پارلیمان میں صدر آیردوآن کے ایک وفادار ساتھی اور سابق وزیر انصاف بیکر بوزدگ ایک آئینی ترمیم لانے کی بات کر رہے ہیں، جس سے صدر ایردوآن کو مزید ایک مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا موقع مل سکتا ہے لیکن یہ سب فی الحال قیاس آرائیاں ہیں۔
صدر ایردوآن کی پارٹی کیا چاہتی ہے؟
صدر رجب طیب ایردوآن کے سیاسی کیریئر نے اس وقت زور پکڑا تھا، جب وہ سن 1994 میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ لیکن پھر سن 2019 میں حکمران جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کو یہاں کے ہی بلدیاتی انتخابات میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس مرتبہ صدر ایردوآن کی پارٹی گزشتہ شرمندگی کو مٹانے کی کوشش کرے گی۔
چند ہفتے قبل صدر ایردوآن نے استنبول کا حوالہ دیتے ہوئے ”پانچ ضائع شدہ سال‘‘ کی بات کی تھی۔ سن 2019 میں متحدہ اپوزیشن نے 25 سال بعد تاریخی فتح حاصل کرتے ہوئے ‘اے کے پی‘ سے استنبول اور ترکی کے دارالحکومت انقرہ سمیت 11 شہر واپس لے لیے تھے۔
سن 2019 میں صدر ایردوآن کی حکمران جماعت کی شکست کے ذمہ دار بہت سے عوامل تھے لیکن ایک آدمی خاص طور پر قابل ذکر ہے اور اس کا نام اکرم امام اوغلو ہے۔
ان کا تعلق ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) سے ہے اور یہی استنبول کے مئیر منتخب ہوئے تھے۔
آج 31 مارچ کو ان کا دوبارہ انتخاب یا شکست ترکی کے مستقبل کا تعین کر سکتی ہے۔ استنبول کی سبانجی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات برک ایسن نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر امام اوغلو جیت جاتے ہیں تو ان کے سن 2028 میں صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے امکانات نمایاں طور پر بڑھ جائیں گے۔
استبول میں مقابلہ سخت ہے
لیکن آج صدر ایردوآن کے مخالف کیمپ کے لیے استنبول میں انتخاب جیتنا آسان نہیں ہو گا۔ ترکی کے او آر سی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سروے کے مطابق استنبول میں امام اوغلو اور اے کے پی کے امیدوار مرات کوروم کے درمیان صرف 1.2 فیصد پوائنٹس کا فرق ہے۔
استنبول کے میئر کا کام پورے ملک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ترکی کی آبادی کا پانچواں حصہ میٹروپولیٹن استنبول کے علاقے میں رہتا ہے جبکہ ترکی کی نصف برآمدات کے ساتھ ساتھ اس کی 56 فیصد درآمدات بھی اسی میگا سٹی سے گزرتی ہیں۔
ترکی کا ممکنہ مستقبل
ماہر سیاسیات برک ایسن کے مطابق آج کے بلدیاتی انتخابات ظاہر کریں گے کہ ترکی کا ”آمرانہ نظام‘‘ آنے والے برسوں میں کون سا رخ اختیار کر سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ”ایردوآن ان انتخابات کو مخالفین کو کمزور کرنے یا سن 2028 کے ممکنہ حریفوں سے مکمل طور پر چھٹکار پانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
برک ایسن کے مطابق اگر صدر ایردوآن اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ترک اپوزیشن مستقبل میں اتنا مقابلہ بھی نہیں کر سکے گی، جتنا وہ آج کرنے کی اہل ہے، ”اسی لیے یہ انتخابات ترک اپوزیشن کے لیے بہت اہم ہیں۔‘‘