عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان کو 16 ستمبر کو طلب کرلیا۔
اسلام آباد کے مختلف گاؤں کے متاثرین کو معاوضوں کی عدم ادائیگی کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ریاست شہریوں کو حقوق دینے میں ناکام رہی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سی ڈی اے عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے، متاثرین کو تسلیم شدہ معاوضوں کی عدم ادائیگی آئین میں دیئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، ریاست شہریوں کو حقوق دینے میں ناکام رہی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ چیئرمین سی ڈی اے وضاحت کریں کہ متاثرین کو معاوضے ابھی کیوں نہیں دیے گئے؟۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ ہمارے بچے بھی جوان ہو گئے ہیں ہم کدھر جائیں گے ابھی معاوضہ نہیں ملا ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو پتہ ہے کتنا بڑا ایشو ہے؟اس کو آپ ایک عام کیس کی طرح لے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زمینیں چالیس 40 سال پہلے آپ نے لے لی ہیں،اس عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ ان متاثرین کے کلیم ان کو دیئے جائیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ 22 ہزار پلاٹ سی ڈی اے نے چیئرمین اور اپنے ممبروں کے نام کر لیے، جن سے زمینیں چھینی ہیں ان کو کچھ نہیں دیا گیا، کیا آپ چاہتے ہیں ہم چیئرمین سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع کریں؟ سی ڈی اے عوام کی نہیں بلکہ کسی اور کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔
عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 ستمبر تک ملتوی کردی۔
’کوئی غلط کہے تو کہنے دیں، اسلام آباد ہائیکورٹ توہین عدالت قوانین پر یقین نہیں رکھتی ’
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافیوں سے متعلق کیس میں اہم ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط کہنے دیں ،یہ عدالت توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافیوں سے متعلق پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے ) کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج صبح رجسٹرار نے نوٹ دیا،جس میں 3قابل احترام صحافیوں سے متعلق مجھے بتایا ہے کہ میری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں ، مجھے وہ باتیں قابل احترام 3صحافی بتا رہے ہیں جو مجھے بھی نہیں پتہ ، اگر کوئی ایسی چیز ہے بھی تو سامنے آکر مجھے بتا دیں ، جو کہنا ہے کہتے رہیں ،3سال سے تنقید ہی اس عدالت کی طاقت ہے لیکن کوئی اثرانداز نہیں کر سکتا ، جو کچھ کسی نے کہنا ہو کہے ،اس عدالت نے آزادی دی ہوئی ہے ۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ جس چیز کا مجھے علم نہیں ہے ،اگر ان کو علم ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے مجھے بھی بتا دیں ،یہ عدالت کسی چیز سے گھبرانے والی نہیں ہے،آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے، میں پھر کہتا ہوں یہ اس عدالت کا احتساب ہے، اس عدالت نے نہ کسی کو اپروچ ہونے کی اجازت دی ہے نہ کسی سے رابطہ رکھا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ مزید ریمارکس دیئے کہ وقت کے ساتھ سچ خود بخود کھل کر سامنے آ جاتا ہے، صحافی اپنے آپ سے پوچھیں جو وہ کر رہے ہیں کیا وہ درست کر رہے ہے؟ عدالت ہمیشہ فیصلوں سے پہچانی جاتی ہے، یہ عدالت آپ کو کبھی نہیں روکے گی، جو کہنا ہے کہتے رہیں، یہ عدالت توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی، اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط کہنے دیں۔