روس کے صدر ولادی میر پوتن نے مغربی دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس اور امریکہ کی زیر قیادت فوجی اتحاد نیٹو کے درمیان براہ راست تصادم کا مطلب یہ ہوگا کہ کرہ ارض تیسری عالمی جنگ سے ایک قدم دور ہے. صدرپوتن نے یہ بیان روس میں تازہ ترین صدارتی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد دیا ہے روسی صدر نے واضح کیا کہ نتائج سے مغرب کو یہ پیغام مل جانا چاہیے کہ اس کے راہنماﺅں کا واسطہ آنے والے کئی برسوں تک پر اعتماد روس کے ساتھ پڑے گا چاہے وہ جنگ میں ہو یا امن میں.
حالیہ انتخابات میں فتح کے بعد 71 سالہ پوتن اپنی نئی چھ سالہ مدت کا آغاز کریں گے جس کے نتیجے میں وہ جوزف سٹالن کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے اور اگر وہ اسے مکمل کرتے ہیں تو وہ 200 سال سے زیادہ عرصے میں روس کے سب سے طویل عرصے تک حکمران رہنے والے رہنما بن جائیں گے ان انتخابات میں پبلک اوپینیئن فاﺅنڈیشن (ایف او ایم) کے ایگزٹ پول کے مطابق پوتن نے 87.8 فیصد ووٹ حاصل کیے جو روس کی سوویت یونین کے بعد کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں رشین پبلک اوپینیئن ریسرچ سینٹر (وی سی آئی او ایم) نے پوتن کو 87 فیصد ووٹ دیا ہے.
نتائج کے مطابق کمیونسٹ امیدوار نکولائی خاریتونوف صرف چار فیصد کے ساتھ دوسرے، نئے آنے والے ولادی سلاو داونکوف تیسرے اور انتہائی قوم پرست لیونڈ سلاتسکی چوتھے نمبر پر رہے پوتن کا یہ بیان فرانس کے صدر کے اس بیان کا ردعمل ہے جس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ مستقبل میں یوکرین کے اندر زمینی فوجیوں کی تعیناتی سے انکار نہیں کر سکتے.
بہت سے مغربی ممالک نے خود کو اس سے دور رکھا ہے جبکہ مشرقی یورپ کے ممالک نے حمایت کا اظہار کیا 1962 کے کیوبا میزائل بحران کے بعد یوکرین کی جنگ نے مغرب کے ساتھ ماسکو کے تعلقات میں سب سے گہرا بحران پیدا کیا ہے. پوتن اکثر جوہری جنگ کے خطرات کے بارے میں متنبہ کرتے رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’کبھی بھی یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت محسوس نہیں کی فرانسیسی صدر میکروں کے بیان اور روس اور نیٹو کے درمیان تصادم کے خطرات اور امکانات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں پوتن نے کہا کہ جدید دنیا میں سب کچھ ممکن ہے.
سوویت یونین کے بعد روس کی تاریخ کا سب سے بڑا تمغہ جیتنے کے بعد پوتن نے بتایا کہ یہ سب پر واضح ہے کہ اس سے تیسری عالمی جنگ ایک قدم دور رہ جائے گی میرے خیال میں شاید ہی کسی کو اس میں دلچسپی ہو پوتن نے مزید کہا کہ نیٹو کے فوجی اہلکار یوکرین میں پہلے سے موجود ہیں اور روس نے میدان جنگ میں بولی جانے والی انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانیں سنی ہیں اس میں بھلائی نہیں ہے سب سے پہلے ان کے لیے، کیونکہ وہ وہاں بڑی تعداد میں مر رہے ہیں.
دوسری جانب 15 سے 17 مارچ 2024 کو ہونے والے روسی انتخابات سے قبل یوکرین نے روس کے خلاف حملے بڑھا دیے ہیں اس دوران سرحدی علاقوں پر گولہ باری جاری رہی جب پوتن سے یہ پوچھا گیا کیا وہ یوکرین کے خارکیو علاقے پر قبضہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟تو پوتن نے جواب دیا کہ اگر حملے جاری رہے تو روس روسی علاقے کے دفاع کے لیے یوکرین کے مزید علاقوں سے ایک بفر زون تشکیل دے گا.
صدرپوتن نے کہا کہ میں اس بات سے انکار نہیں کرتا آج ہونے والے المناک واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم مناسب سمجھیں گے کسی وقت ہم کیف حکومت کے زیرکنٹرول علاقوں میں ایک مخصوص ”سینٹری زون“ بنانے پر مجبور ہو سکتے ہیں انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا لیکن کہا کہ اس طرح کا علاقہ اتنا بڑا ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی ساختہ اسلحے کو روسی علاقے تک پہنچنے سے روکا جا سکے.
صدرپوتن نے فروری 2022 میں یوکرین پر مکمل حملے کا حکم دیا تھا جس کی وجہ سے آٹھ سال بعد یورپ میں پھر جنگ چھڑ گئی تھی روسی صدر پوتن نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ میکروں یوکرین میں جنگ کو بھڑکانے کی کوشش روک دیں اور امن قائم کرنے میں کردار ادا کریں ایسا لگتا ہے کہ فرانس کردار ادا کر سکتا ہے ابھی بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے انہوں نے کہا کہ میں یہ بار بار کہہ رہا ہوں اور میں دوبارہ یہ کہوں گا ہم امن مذاکرات کے حق میں ہیں لیکن صرف اس لیے نہیں کہ دشمن کے پاس گولیاں ختم ہو رہی ہیں.
انہوں نے کہاکہ اگر وہ واقعی سنجیدگی سے دونوں ریاستوں کے درمیان طویل مدتی پرامن اور اچھے ہمسایہ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں اور صرف ڈیڑھ سے دو سال کے لیے دوبارہ اسلحہ سازی کے لیے وقفہ نہیں لینا چاہتے پوتن نے انتخابات پر امریکی اور مغربی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتخابات جمہوری نہیں ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال پر تنقید کی پوتن نے امریکہ کے بارے میں کہا کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پوری دنیا ہنس رہی ہے یہ صرف ایک تباہی ہے یہ جمہوریت نہیں ہے.