روسی یوکرینی جنگ: جرمنی سے اختلاف طریقے پر ہے، پالیسی پر نہیں، فرانس

پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے آج اتوار 17 مارچ کو اخبار ‘لپاریسیئاں‘ (Le Parisien) میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روس یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ کییف کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہوا اور روسی صدر پوٹن ‘خوف پھیلانے کی سوچ‘ پر عمل پیرا ہیں۔

جرمنی، فرانس اور پولینڈ کے رہنماؤں کا اجلاس، یوکرین کی فوجی امداد کا موضوع زیر بحث

فرانسیسی سربراہ مملکت کے بقول روسی یوکرینی جنگ میں جرمنی اور فرانس مل کر یورپی یونین کی سطح پر یوکرین کی جو مدد کر رہے ہیں، اس میں بھی برلن اور پیرس میں قومی حکومتوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔

’طریقہ کار مختلف ہے، پالیسی نہیں‘

صدر ایمانوئل ماکروں نے تاہم کہا کہ یوکرینی جنگ سے متعلق عملی فیصلوں میں جرمنی اور فرانس کے مابین اختلاف،”پالیسی کا اختلاف نہیں بلکہ ایک ہی پالیسی کو مختلف طریقوں سے عملی شکل دینے سے متعلق ہے۔

ایمانوئل ماکروں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ خود ان کا اور جرمن چانسلر اولاف شولس کا انداز سیاست مختلف ہے اور اس وجہ سے وہ نہیں سمجھتے کہ یہ دونوں رہنما یا ان کے ممالک آپس میں کسی تنازعے کا شکار ہیں۔

یوکرین جنگ: یورپی یونین کا مزید عسکری امداد فراہم کرنے پر اتفاق

صدر ماکروں نے پیرس سے شائع ہونے والے اخبار ‘لپاریسیئاں‘ کو بتایا، ”میرے اور جرمن چانسلر شولس کے مابین کبھی کوئی مشکل یا مسائل نہیں رہے اور ہمارے درمیان مقاصد اور موجودہ صورت حال پر ردعمل کے حوالے سے بھی بہت کچھ مشترک ہے۔

فرانسیسی صدر کے الفاظ میں، ”کچھ فرق صرف اس حوالے سے ہے کہ فیصلوں کو عملی شکل کیسے دی جائے اور اس کا سبب بھی دونوں ممالک میں اسٹریٹیجک نوعیت کے فیصلوں کے وہ قومی کلچر ہیں، جو جرمنی اور فرانس میں بہرحال ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔‘‘

روس کے پاس جدید ترین نیوکلئیر ہتھیار موجود ہیں، پوٹن

ماکروں کے بیان کا پس منظر

فرانسیسی صدر ماکروں نے اپنے آج شائع ہونے والے اخباری انٹرویو میں یہ باتیں اس پس منظر میں کیں کہ جمعہ 15 مارچ کو جرمنی میں وائیمار کے شہر میں ماکروں، جرمن چانسلر شولس اور پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک کی ایک مشترکہ ملاقات ہوئی تھی۔

یوکرین جنگ: ’ہتھیار ڈالنے کی علامت‘ سے متعلق پوپ کا بیان جرمنی کے لیے ناگوار

اس ملاقات سے قریب تین ہفتے قبل فرانسیسی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یورپی یونین کی طرف سے یوکرین کی روس کے ساتھ جنگ میں کییف کی مدد کرتے ہوئے اس امر کو عوامی سطح پر خارج از امکان قرار نہیں دینا چاہیے کہ مستقبل میں یوکرین میں زمینی فوجی دستے بھی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔

سویڈن مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا بتیسواں رکن بن گیا

صدر ماکروں کے اس موقف سے جرمن چانسلر شولس نے اس کے بعد کے کئی دنوں میں متعدد مرتبہ اختلاف کرتے ہوئے اسے مسترد بھی کر دیا تھا۔ ساتھ ہی چانسلر اولاف شولس نے یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی اپنے فوجی یوکرین نہیں بھیجے گا۔

جرمن فوج نے مغرب کو تقسیم کرنے کی روسی کوشش کو بے نقاب کر دیا، امریکہ

پھر فرانسیسی صدر نے اولاف شولس کے ساتھ ملاقات کی تجویز پیش کی تھی، جو برلن میں ہوئی۔

اس ملاقات کے بعد بھی فرانسیسی صدر نے زور دے کر کہا تھا کہ یوکرین میں زمینی فوجی دستے بھیجنا ممکنہ طور پر ضروری ہو سکتا ہے۔

تاہم جرمن چانسلر شولس ابھی تک روسی یوکرینی جنگ سے متعلق صدر ماکروں کے اس موقف سے مختلف سوچ کے حامل ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں