سیلابی ریلا دادو میں داخل ، بوریوں سے بندھ باندھے جارہے ہیں
سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، سیلابی ریلا دادو میں داخل ہوچکا ہے جس کے بعد متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کرتے ہوئےگھروں کو سیلابی پانی سے بچانے کے لیے بوریوں سے بندھ باندھنے لگے۔
جوہی، خیرپور ناتھن شاہ کے علاقے ڈوب گئے ہیں جبکہ دادو، بدین، کندھ کوٹ اور ٹھٹھہ کے سیکڑوں دیہات تاحال زیرآب ہیں۔ سندھ میں سیلاب متاثرین کو خیمے دستیاب ہیں نہ ہی ادویات جس کی وجہ سے ہیضے اور گیسٹرو میں مبتلا سیلاب زدگان امداد کے منتظرہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی وزیرشیری رحمٰن نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان کا 70 فیصد حصہ ڈوب گیا ہے، انہوں نے حالیہ شدید بارشوں کو “تباہ کن” قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جون کے وسط سے اب تک سندھ میں 432 اموات ہوچکی ہیں۔
موسلا دھاربارشوں کے باعث آنے والے سیلابی ریلے نے ضلع دادو کی 4 تحصیلوں میں سے ایک خیرپورناتھن شاہ کو ڈبو دیا ہے، محتاط اندازوں کے مطابق جوہی کا 70 فیصد علاقہ بشمول دیہی اور شہری، مہر کا 60 فیصد اور دادو کا 30 فیصد حصہ سیلاب کی زد میں ہیں۔
مرکزی تحصیل دادو کے مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ پانی مضافاتی علاقوں سے ٹکرانے کے بعد آبادی والے علاقوں میں داخل ہوجائے گا۔
دادو انتظامیہ نے ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل ہونے کا مشورہ دیا ہے ۔
بہت سے سیلاب متاثرین نے شکایت کی ہے کہ انہیں صاف پانی اورخوراک نہیں مل رہی، نہ ہی انتظامیہ موجود تھی۔ متاثرین نے دعویٰ کیا کہ پرائیویٹ جہاز مالکان جنہوں نے متاثرہ علاقوں سے سامان لے جانے کے لیے لوگوں کو سروس فراہم کرنا شروع کر دی ہے، وہ بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں اور اس کام میں پولیس بھی ملوث ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمارکے مطابق سندھ میں سیلاب سے 11 لاکھ 72 ہزار 549 مکانات میں سے 9 لاکھ 86 ہزار 101 مکانات کو نقصان پہنچا۔
پاکستان میں جون سے اگست کی سہ ماہی میں 30 سالہ اوسط سے تقریباً 190 فیصد زائد ( کل 390.7 ملی میٹریا 15 اعشاریہ 38 انچ ) بارش ہوئی ، سب سے زیادہ متاثر 50 ملین کی آبادی والا صوبہ سندھ ہوا جہاں گزشتہ 30 سال کی اوسط سے 466 فیصد زائد بارش ہوئی۔
سیلاب سے متاثرہ خاندانوں نےسڑکوں پر پناہ لے رکھی ہے۔
شیری رحمان نے امدادی سرگرمیوں اور صورتحال کا 2008 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب سے موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ، “اس بارکوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے”۔کھڑے پانی کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور بہت زیادہ ہے۔ یہ بہت سے علاقوں میں پانی کی گہرائی 10 فٹ تک ہے اور یہ بخارات بن کر اُڑتابھی نہیں ہے۔