مصر میں 35 بلین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری اقتصادی مشکلات کا شکار اس ملک کے لیے ایک اہم موڑ قرار دی جا رہی ہے۔
قاہرہ حکومت کئی دہائیوں سے ملکی معیشت کی زبوں حالی سے نمٹنے کی کوشش میں ہے۔ تاہم مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
غیر ملکی کرنسی کی قلت کی وجہ سے افراط زر کی شرح عوام کے لیے درد سر بن چکی ہے۔
متوسط طبقہ بھی مہنگائی سے تنگ ہے جبکہ غربت کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔
تاہم گزشتہ ہفتے ہی مصری حکام نے اعلان کیا کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت مصر میں 35 بلین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کرے گی۔ اس میں زیادہ تر رقوم راس الحکمہ نامی تعمیراتی منصوبے پر خرچ کی جائیں گی۔
تاریخی شہر سکندریہ کے نزدیک واقع راس الحکمہ نامی اس ساحلی علاقے میں سیاحت ایک اہم انڈسٹری قرار دی جاتی ہے۔
مصری تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ سب سے بڑی سرمایہ کاری قرار دی جا رہی ہے۔
مصری حکومت کا کہنا ہے کہ پہلی قسط موصول ہو چکی ہے جبکہ باقی ماندہ رقوم آئندہ دو ماہ میں مصر کے مرکزی بینک میں منتقل کر دی جائیں گی۔
اس سرمایہ کاری کی وجہ سے قاہرہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط پورا کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
مصر اس عالمی مالیاتی ادارے سے بھی دس بلین ڈالر کا ایک بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ ملک کی علیل معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔
اس کے علاوہ ایسی خبریں بھی ہیں کہ سعودی عرب بھی بحیرہ احمر میں واقع مصری سیاحتی مقام راس الجمیلہ میں پندرہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔
سرمایہ کاری کے لیے مصر میں کیا صرف سیاحتی مقامات ہی ہیں؟
مصری سیاسی امور کے ماہر حسام الحمالوی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سرمایہ کاری مصری اقتصادی مسائل سے نمٹنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتی۔
جرمنی میں مقیم حسام الحمالوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ یہ منصوبہ جات دراصل مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے غیر عقلی معاشی فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مصری صدر مشکل وقت میں علاقائی اور عالمی طاقتوں سے یہ کہتے ہوئے بیل آؤٹ پیکج حاصل کر لیتے ہیں کہ ‘اس ریجن میں مصر کا ناکام ہونا درست نہیں‘۔
واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک تحریر انسٹیٹیوٹ فار مڈل ایسٹ پالیسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ٹموتھی کالڈس کے بقول اس طرح کی سرمایہ کاری عارضی طور پر سرمایہ کاروں کا اعتماد تو جیت سکتی ہے لیکن طویل المدتی بنیادوں پر سنجیدہ اصلاحات نہ کی گئیں تو سب کچھ فضول ہی ثابت ہو گا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کالڈس کا مزید کہنا تھا کہ مصر میں سیاحتی مقامات پر سرمایہ کاری کے بجائے دیگر اہم معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
ٹموتھی اور حسام نے یہ بھی کہا کہ راس الحکمہ میں کمرشل منصوبے وہاں کے مقامی لوگوں کے بے گھر ہو جانے کا باعث بھی بنیں گے۔ اس کے علاوہ متعدد ماہرین نے اس منصوبے سے جڑے ماحولیاتی نقصانات کے حوالے سے بھی سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور مصر میں سرمایہ کاری
اسرائیل اور حماس کے مابین جاری مسلح تنازعہ اور اس کے نتیجے میں علاقائی سطح پر پائی جانے والی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے فی الحال یہ کہنا مناسب ہی ہے کہ ‘اس ریجن میں مصر کا ناکام ہونا درست نہیں ہو گا‘۔
اس کشیدگی کی وجہ سے مصر میں بھی ایک سیاسی اور اقتصادی دباؤ پایا جا رہا ہے۔
غزہ کی لڑائی کی وجہ سے مصر میں سیاحت تو متاثر ہوئی ہی ہے لیکن ساتھ ہی نہر سوئز کا اہم تجارتی راستہ بھی بند ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ دونوں مصری حکومت کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔
اس وقت مصر میں اقتصادی مسائل کی وجہ سے عوامی بدامنی کا کوئی بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ غزہ میں لڑائی اور سوڈان میں خانہ جنگی کی وجہ سے عبدالفتاح السیسی کی حکومت کی اہمیت بہت زیادہ ہو چکی ہے۔
خلیجی ریاستوں کی بیل آؤٹ ڈپلومیسی
متحدہ عرب امارات کی مصر میں اس خطیر سرمایہ کاری کا غزہ کے تنازعے یا آئی ایم ایف کی قاہرہ حکومت کے ساتھ ممکنہ ڈیل سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
اس مخصوص وقت میں اس طرح کی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج پر مذاکرات ایک قابل غور اتفاق قرار دیا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر حسن الحسن کے مطابق امریکہ دراصل آئی ایم ایف کا اہم حمایتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ واشنگٹن حکومت اس مالیاتی ایجنسی کو اپنے اتحادیوں کو سزا یا انعام دینے کی غرض سے بھی استعمال کرتی ہے۔
بحرین میں واقع انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ الحسن نے ڈی ڈؓبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ آئی ایم ایف، متحدہ عرب امارات اور مصر نے ایسی چہ مگوئیاں مسترد کر دی ہیں کہ مصر میں 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے مقاصد دراصل کچھ اور ہیں۔
الحسن کا البتہ یہ بھی کہنا ہے کہ خلیجی ممالک بیل آؤٹ پیکج دے کر فوائد حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی کو بیل آؤٹ پیکج ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ خلیجی عرب ممالک اب مصر کی ایسی متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں، جو بندرگاہوں کو آپریٹ کرتی ہیں۔ پیٹرو کیمکل اور مالیاتی اور ریٹیل سیکٹر کے علاوہ ایسی کمپنیاں بھی خلیجی ممالک کی ملکیت ہیں، جو مصر میں متعدد تاریخی ہوٹلوں کو چلاتی ہیں۔