امریکا میں انتہائی مالدار افراد سالانہ 150 ارب ڈالر کا انکم ٹیکس چرانے لگے غیر قانونی سرگرمیوں کی کمائی پر ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کی نشاندہی پر 15 فیصد انعام

امریکا میں ایک طرف انتہائی مالدار افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف ان میں ٹیکس چرانے کا رجحان بھی بہت تیزی سے پنپ رہا ہے۔ انٹرنل ریونیو سروس کے ترتیب دیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں انتہائی مالدار افراد ہر سال تقریباً 150 ارب ڈالر کا ٹیکس چراتے ہیں۔

ایک عشرے کے دوران ٹیکس دینے والوں کی تعداد ضرور بڑھی ہے تاہم سالانہ 10 لاکھ ڈالر سے زائد کے ٹرن اوور کا آڈٹ جمع کرانے والوں کی تعداد میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

سی این بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنل ریونیو سروس نے ٹیکس چرانے والے افراد، پارٹنر شپس اور کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔

1600 ملینیئرز سے، جنہوں نے ڈھائی لاکھ ڈالر فی کس ٹیکس چرایا ہے، مجموعی طور پر 4 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

انٹرنل ریونیو سروس نے ان لوگوں کے لیے بھی انعام کا اعلان کیا ہے جو ٹیکس چوری کی اطلاعات دیں گے۔ انہیں جمع شدہ ٹیکس کا کم از کم 15 فیصد بطور انعام دیا جائے گا۔ انعام کسی بھی صوررت وصول شدہ ٹیکس کے 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔

امریکی محکمہ خزانہ نے ایک خصوصی پروگرام بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت چرائی ہوئی کار کی مارکیٹ ویلیو بھی آڈٹ دستاویزات میں شامل کی جائے گی بشرطِ کہ کار اس کے اصل مالک کو لوٹائی نہ گئی ہو۔

قومی خزانے کی حالت بہتر بنانے کے لیے جرائم پیشہ افراد سے بھی کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی کمائی کا اعلان کرکے ٹیکس دیں۔

امریکی محکمہ خزانہ ٹیکس چرانے والوں سے وصولی کے ذریعے قومی خزانے میں 2034 تک کم و بیش 561 ارب ڈالر داخل کرنا چاہتا ہے۔

امریکا پر اندرونی قرضوں کا بھی غیر معمولی دباؤ ہے۔ اگر تمام بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری ادارے اور انتہائی مالدار افراد اپنا ٹیکس پوری دیانت سے ادا کریں تو اندرونی قرضوں کا بوجھ معقول حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال اس کے آثار نہیں۔

ٹیکس چوری اور معیشتی مشکلات کے باعث امریکی حکومت اب بیرونِ ملک عسکری مہمات اور دیگر کاموں کے لیے زیادہ فنڈنگ ممکن نہیں بنا پارہی۔

روس کے خلاف لڑنے کے لیے یوکرین کو مضبوط کرنے کی غرض سے صدر بائیڈن نے 61 ارب ڈالر کا خصوصی پیکیج تیار کیا تھا تاہم وہ کانگریس میں اٹک کر رہ گیا ہے۔ ری پبلکن ارکان کہتے ہیں کہ امریکا کی اندرونی مشکلات کم نہیں اس لیے بیرونی سطح پر کچھ زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں