یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بڑے عالمی تنازع میں بدل سکتی ہے ‘امریکا اور یورپی اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کی مزید مالی و فوجی امداد سے گریزجنگ کا نقشہ بدل سکتا ہے اور ماسکو ایک مرتبہ پھر مغرب کے لیے سردرد بن رہا ہے ایسے حالات میں امریکا اور اس کے نیٹواتحادی رواں سال کے دوران فیصلہ کن جنگ چھیڑسکتے ہیں جس کے نتائج پوری دنیا کو بھگتنا پڑیں گے.
مغربی تھنک ٹینک اور مبصرین خبردار کرتے آئے ہیں کہ روس یوکرین جنگ کا سب سے زیادہ نقصان یورپی ممالک کو ہوگاجن کی معیشت کورونا کے بعد سے مسلسل زوال پذیر ہے یورپی ممالک میں دوسالوں کے درمیان مہنگائی میں بڑا اضافہ ہوا ہے جبکہ شہریوں کی آمدن میں کمی واقع ہوئی ہے ایسے میں روس کی جانب سے تیل اور گیس کی لائنوں کو بند کرنے سے یورپی ممالک میں توانائی کے شعبے میں قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے.
یورپی ممالک میں بجلی‘تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مقامی کاروبار بند ہونے لگے ہیں ‘کاروبار بند ہونے سے نوکریوں میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے اس لیے یورپی یونین کے متعدد ممالک اس جنگ سے نکلنے کا عندیہ دے چکے ہیں . مبصرین کا کہنا ہے کہ یورپی شہریوں میں یہ خیال پایا جارہا ہے کہ ان کے ٹیکسوں کا پیسہ امریکی مفادات کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں جھونکا جارہا ہے ان حالات میں خدشات بڑھ رہے ہیں کہ اگلے چند ماہ میں یہ علاقائی تنازع ایک بڑی جنگ میں بدل سکتا ہے جس میں چین اور بھارت جیسے بڑے ممالک کے غیرجانبدار رہتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کسی بھی فریق کی جانب سے غیرروایتی ہتھیار(اٹیمی ہتھیار)استعمال نہ کیئے جائیں.
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف مشرق وسطحی میں اسرائیل فلسطین جنگ جاری ہے تو دوسری جانب یمن‘شام اور عراق سمیت کئی چھوٹے بڑے تنازعات چل رہے ہیں مجموعی عالمی معاشی صورتحال 1930کے” گریٹ ڈیپریشن“ سے بدترہوچکی ہے جس کا نتیجہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا تھا. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روس نے سردجنگ سے جو سبق حاصل کیا اس کے پیش نظراس نے نہ صرف خود کو معاشی طور پر مضبوط کرنے پر زور دیا بلکہ دنیا کے کئی اہم ممالک اس کے حلیف کے طور پر کھڑے ہیں روس عرب ممالک سے بھی تعلقات استور کررہا ہے تاکہ کسی بھی بڑی جنگ کی ضورت میں وہ کم ازکم غیرجانبدار رہیں ماہرین کا خیال ہے رواں سال فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے خصوصا موسم گرما کے آغازسے صورتحال واضح ہونے شروع ہوجائے گی کیونکہ دوسالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ شدید سردی کے موسم میں جنگ کی شدت میں فریقین کی جانب سے کمی آجاتی ہے جبکہ گرمی کا آغازہوتے ہی جنگ شدت اختیار کرلیتی ہے.
ادھر برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی “کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طویل جنگ نے جہاں یوکرین کو تھکا دیا ہے وہیں امریکا اور نیٹو اتحادی بھی جنگ کا جلد خاتمہ چاہتے ہیں امریکی کانگریس کی جانب سے 60ارب ڈالر کی امداد روکے جانے کے بعد نیٹوکے مغربی اتحادی ممالک بھی پیچھے ہٹ رہے ہیںاور حالات بتا رہے ہیں کہ یوکرین کے لیے یورپی یونین کی منظور کردہ54ارب ڈالر کی امداد بھی خطرے میں ہے ‘ یوکرین، روس اور اتحادی ممالک کوئی بھی ایسی راہ تلاش نہیں کرپا رہے جس پر چلتے ہوئے خطے میں امن بحال کیا جا سکے یوکرین اپنے موقف پر قائم ہے کہ اس کی بین الاقوامی سرحدوں کو اس کی اصل حالت میں بحال کیا جائے اور وہ روسی فوج کو اپنی زمینی حدود سے باہر نکال کر ہی دم لیں گے دوسری جانب روس اپنی بات پر قائم ہے کہ یوکرین کوئی مستند ملک نہیں اور روسی فوج اپنا مشن تب تک جاری رکھے گی جب تک انہیں اپنے اہداف حاصل نہیں ہو جاتے.
دونوں ممالک کے درمیان شدید لڑائی انتہائی سرد موسم میں بھی جاری رہی اور اس جنگ میں دونوں فریقین کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا محاذ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور 2022 کے مو سم خزاں کے بعد اس میں معمولی سی تبدیلی بھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے‘دو سال قبل شروع ہونے والی اس جنگ کے کچھ مہینوں بعد ہی یوکرین نے روسی فوج کو اپنے شمالی علاقوں سے اور دارالحکومت کیﺅ سے دور دھکیل دیا تھا اسی برس یوکرین نے اپنے مشرقی اور جنوبی علاقوں کو روسی فوج کے تسلط سے آزاد بھی کروایا تھا لیکن اب یوکرینی علاقوں کے اردگرد روسی افواج قابض ہیں‘ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں گولہ بارود کی قلت کا سامنا ہے‘حال ہی میں نوکری سے برخاست کیے جانے والے یوکرینی فوج کے کمانڈر اِن چیف ولیری زالوزنی اور روسی فوج کے حامی بلاگرز بھی اس جنگ کو ایک عسکری دلدل کی تصویر کے طور پر دیکھ رہے ہیں.
فروری کے وسط میں یوکرین نے اپنی فوج کو اپنے مشرقی علاقے اودیوکا سے باہر نکال لیا تھا روسی فوج کی جانب سے اسے اپنی ایک بڑی عسکری کامیابی قرار دیا گیا تھا کیونکہ اودیوکا یہ علاقہ تعزویراتی اہمیت کا حامل ہے جس سے یوکرین میں داخل ہونے کے مزید راستے نکلتے ہیں‘کیﺅ میں حکام نے موقف اختیار کیا تھا کہ اودیوکا سے فوج کے انخلا کا مقصد اپنے فوجیوں کی زندگی کا تحفظ یقینی بنانا تھا ان کی طرف سے یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ اس علاقے میں ان کے فوجیوں کی تعداد کم تھی اور ان کے پاس اسلحے کی بھی کمی تھی.
خیال رہے اودیوکا کا علاقہ روس کے زیرِ تسلط شہر دونیتسک سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘دونیتسک پر روس نے 2014 میں قبضہ کیا تھا اودیوکا سے یوکرینی فوج کا انخلا گذشتہ برس مئی کے بعد روسی فوج کی طرف سے حاصل کی گئی سب سے بڑی کامیابی تھی. خیال رہے مئی 2023 میں روسی فورسز نے یوکرینی شہر بخم±ت پر قبضہ کر لیا تھالیکن جنگی میدان میں یہ کامیابی روس کے ان اہداف سے بہت چھوٹی ہے جو ان کی طرف سے فروری 2022 میں طے کیے گئے تھے یہ اہداف روس کے سرکاری میڈیا اور روس کے حامی عسکری بلاگرز کے ذریعے سامنے آئے تھے اور ان کی طرف سے یہ بھی پروپگینڈا کیا گیا تھا کہ روسی فوج اگلے تین دنوں میں یوکرینی دارالحکومت کیﺅ پر قبضہ کرلے گی اس وقت تقریباً 18 فیصد یوکرینی علاقے روس کے کنٹرول میں ہیں اور اس میں جزیرہ نما کریمیا کا وہ علاقہ بھِی شامل ہے جس پر روسی افواج نے 2014 میں قبضہ کیا تھا اس کے علاوہ روس کے زیر تسلط یوکرینی علاقوں میں دونیتسک اور لوہانسک بھی شامل ہیں پچھلے دو برسوں میں یوکرین کے اتحادیوں کی جانب سے اسے بڑی مقدار میں عسکری، مالی اور انسانی امداد مہیا کی گئی ہے.
کیل انسٹٹیوٹ آف ورلڈ اکانومی کے مطابق جنوری 2024 تک یورپی یونین کے اداروں نے یوکرین کو 92 بلین جبکہ امریکہ نے 73 بلین ڈالر کی امداد مہیا کی ہے مغربی ممالک کی جانب سے فراہم کیے گئے ٹینکس، ایئر ڈیفنس اور آرٹلری سسٹم نے اس جنگ میں یوکرین کی بہت مدد کی ہے لیکن اتحادی ممالک کی جانب سے یوکرین کو ملنے والی امداد میں حالیہ دنوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کے بعد اس بحث نے جنم لیا ہے کہ آخر کب تک اتحادی ممالک کو یوکرین کی مدد کرنی پڑے گی ملک میں اندرونی سیاسی اتار چڑھاﺅ کے درمیان امریکی کانگرس نے یوکرین کے لیے منظور شدہ 60 بلین ڈالر کے امدادی پروگرام کو روک دیا ہے.
ایسے میں یوکرین کے حامیوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاﺅس پہنچ جاتے ہیں تو شاید کیﺅ کے لیے امریکی حمایت ختم ہو جائے گی فروری میں ایک لمبی بحث کے بعد یورپی یونین نے یوکرین کے لیے 54 بلین ڈالر کے امدادی پروگرام کی منظوری دی تھی بحث کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے اتحادی اور ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن نے یوکرین کو ملنے والی امداد کی مخالفت کی تھی اس کے علاوہ یورپی یونین نے مارچ 2024 تک یوکرین کو 10 لاکھ آرٹلری گولے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مدت کے اختتام پر کیﺅ کو صرف پانچ لاکھ کے قریب ہی گولے مل پائیں گے.
بیلاروس کا شمار روس کے ان اتحادی ممالک میں ہوتا ہے جس کے فضائی اور زمینی راستوں کا استعمال روسی افواج یوکرین تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کر چکی ہیں دوسری جانب امریکہ اور یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ایران بھی روس کو ”شاہد ڈرون“ مہیا کر رہا ہے لیکن روس کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے جنگ کی شروعات سے قبل ایک چھوٹی تعداد میں ڈرون مہیا کیے گئے تھے یوکرین میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے یہ ڈرون انتہائی موثر ثابت ہوِئے ہیں کیونکہ اکثر یہ ڈرون ایئر ڈیفنس سسٹم پر نظر نہیں آتے اور اسی وجہ سے اس جنگ میں ڈرون کی مانگ بڑھ گئی ہے.
مغربی ممالک کو یہ امید تھی اس کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیاں شاید روس کو کمزور کریں گی لیکن اس سب کے باوجود بھی روس اپنا تیل فروخت کر پا رہا ہے اور اسے اپنی فوجی انڈسٹری کے لیے ساز و سامان بھی مل رہا ہے چین جنگ میں مصروف دونوں فریقین میں سے کسی کی حمایت نہیں کر رہا اور اس تنازع میں واضح طور پر ایک سفارتی موقف اپنائے ہوئے ہے چین کی جانب سے نہ تو روسی اقدامات کی مذمت کی جا رہی ہے اور نہ ہی وہ روس کے فوجی آپریشن کی حمایت کر رہا ہے لیکن یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ چین اوربھارت سمیت کئی ممالک روس سے تیل خریدنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں.
یوکرین اور روس دونوں ہی کے سفارتکار افریقہ اور لاطینی امریکہ کے چھوٹے ممالک کے دورے کر رہے ہیں تاکہ ان کی سفارتی حمایت حاصل کی جا سکے‘جنگ کی شروعات سے قبل ولادیمیر پوٹن نے ایک مفصل مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے یوکرین کے ایک خودمختار ریاست ہونے کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ یوکرینی اور روسی شہریوں کا تعلق ایک ہی قوم سے ہے دسمبر 2023 میں انہوں نے کہا تھا کہ یوکرین میں جاری روس کے’ ’سپیشل ملٹری آپریشن“ کے مقاصد بدلے نہیں ہیں تھنک ٹینک”رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹٹیوٹ“کا ماننا ہے کہ روس نے اپنی معیشت اور دفاعی صلاحیتوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا ہے اور وہ ایک لمبی جنگ کی تیاری کر چکا ہے ان کا کہنا ہے کہ یورپ ایسے کسی بھی امکان کے لیے تیار نہیں ہے اور ایسے ہی خدشات کا اظہار پولینڈ کے وزیر خارجہ بھی کر چکے ہیں یورپی ممالک، جرمنی کے وزیرخارجہ اور ایسٹونیا کے جاسوس ادارے کی طرف سے حال ہی میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ روس کسی نیٹو اتحادی ملک پر حملہ کرسکتا ہے ان خدشات کے اظہار کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نیٹو اور یورپی یونین ایسے کسی بھی حملے کی روک تھام کے لیے حکمت عملی مرتب کر رہے ہیں جس میں عسکری اور معاشی تیاریاں بھی شامل ہیں.
تاہم نیٹواتحادی ممالک نہ صرف معاشی بدحالی کا شکار ہورہے ہیں بلکہ طویل جنگ سے ان کی تھکان بھی بڑھتی جارہی ہے سب سے بڑا مسلہ ان ممالک کے عوام کی جانب سے اپنی حکومتوں پر دباﺅ ہے حال ہی میں یورپی ممالک کے کسانوں نے یوکرین کے خلاف ایک احتجاجی تحریک کا آغازکیا ہے اور پولینڈ میں یوکرین کی سرحد پر جمع ہوکر یوکرین کی زرعی مصنوعات کو ضائع کیا گیا اسی روز بیلجیئم‘ناروے‘سویڈن سمیت دیگر یورپی ممالک میں کسانوں کے مظاہرے دیکھنے میں آئے جوکہ یورپی یونین کی اس پالیسی کے خلاف تھے جس کے تحت یوکرین کو مدد فراہم کرنے کے لیے یورپی ممالک میں مویشیوں اور زرعی اجناس کی پیدوار کو کم کیا جائے او ریوکرین سے ان کی درآمدات کو بڑھایا جائے.