بھارتی انتخابات میں دودرجن سے زیادہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد نریندرمودی کے مقابلے کے لیے تیار ہے تاہم حال ہی پانچ ریاستی انتخابات کے نتائج سے اندازکیا جاسکتا ہے کہ مودی کو تیسری مدت کے لیے وزیراعظم بننے سے روکنا اپوزیشن جماعتوں کے لیے ممکن نہیں ہوگا. بھارت میں چوٹی جرائد اور ٹیلی ویژن چینلزکی جانب سے کروائے جانے والے سروے کی رپورٹس میں بھی مودی سب سے آگے نظر آرہی ہیں معاشی پالیسیوںکے ساتھ مذہبی انتہاپندووٹروں کے لیے وہ اب”اوتار“سے کم نہیں خاص طور پر متنازعہ ”رام مندر“ کی تعمیران کا سب سے بڑا سیاسی کارڈ تصور کیا جارہا ہے.
نریندرمودی کی مقبولیت اور معاشی پالیسیوں سے انہوں نے نوجوان ووٹروں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے بھارت دنیا میں ہنر مند لیبر مارکیٹ میں اہم حیثیت رکھتا ہے ‘وزارت عظمی کی وو مدتوں میں مودی دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بھارت میں لانے میں کامیاب رہے اسی طرح خوراک‘ادویات سازی‘ہیوی انڈسٹری میں دنیا کی مقبول کمپنیوں نے بھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ‘اسی طرح عرب ملکوں کی جانب سے تیل صاف کرنے کے بڑے منصوبے بھی بھارت میں لگائے گئے اور انہوں نے متحدہ عرب امارات ‘سعودی عرب ‘کویت اور قطر سمیت عرب دنیا میں ایسے تعلقات قائم کیئے جن سے پاکستانی لیبرمارکیٹ کو بہت نقصان پہنچا کم بھارت کی ہنرمند لیبر پالیسی سے بہتر اجرت والی نوکریوں کے دروازے پاکستانیوں پر بند ہوتے چلے گئے بلکہ پچھلے پانچ سال کے دوران سعودی عرب‘کویت اور عرب امارات سمیت کئی عرب ممالک سے بڑے پیمانے پر پاکستانی لیبرکو بے دخل کیا گیا .
اسی عرصے کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان اور بھارت سے سرمایہ کاری کے معاہدے کیئے مگر پاکستان میں ان معاہدوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جبکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی معاونت سے مودی حکومت نے ریاست گجرات میں تیل صاف کرنے کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا ہے اور اسی ریفائنری سے روسی تیل صاف کرکے یورپی ممالک کو بیچ کر بھارت نے اربوں ڈالر کا منافع کمایا ہے.
مودی کی انہی پالیسیوں اور عالمی سطح پر بھارتی اثرورسوخ میں اضافے کی وجہ سے بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے ریاستی انتخابات میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کے خلاف بننے والے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں باہمی اختلافات سے نریندر مودی کو سیاسی فائدہ پہنچ رہا ہے قومی انتخابات سے صرف چند ماہ قبل اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ”انڈیا“میں نظریاتی اختلافات اور شخصیتوں کے ٹکراﺅ کی وجہ دراڑیں پڑ رہی ہیں .
بھارت کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ رقابتوں، سیاسی انحراف اور نظریاتی تصادم سے شکستہ” انڈیا الائینس“ جو مودی کو انکے منصب سے ہٹانے اور انکی بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتخاب میں شکست دینے کے لئے وجود میں آیا تھا،اسوقت بدنظمی اور افراتفری کا شکار ہے‘گزشتہ ماہ ایودھیا شہر میں رام مندر کے افتتاح کے بعد مودی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے مندر کی تعمیر انکی پارٹی کے ہندو قوم پرستی کے پرانے وعدے کی تکمیل تھی.
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی قیادت کانگریس کے پاس ہے جو کبھی ملک کی سیاست پر چھائی ہوئی تھی اور اس میں دو درجن سے زیادہ طاقتور علاقائی پارٹیاں شامل ہیں جو بعض ریاستوں میں ایک دوسرے کی براہ راست حریف ہیں جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں ، انکے اختلافات میں بھی شدت آرہی ہے اور مودی کے مسلسل تیسری مدت حاصل کرنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں.
ایک سیاسی مبصر آراتی جے راتھ کہتے ہیں کہ اپوزیشن ابتری کی حالت میں ہے وہ بہت کمزور نظر آتی ہے اور ان میں ہم آہنگی بالکل نہیں ہے‘بھارت کے انتخابی نظام میں جو امیدوار زیادہ تر ووٹ حاصل کرتا ہے وہ کامیاب قرار پاتا ہے2019 میں مودی کی پارٹی کو 37 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس نے543 کے ایوان میں 303نشستیں حاصل کی تھیں‘اپوزیشن ہر حلقے میں بی جے پی کے مقابلے ہر ایک امیدوار کھڑا کرکے ٹوٹے ہوئے ووٹ کو مستحکم کرنے کی امید کر رہی ہے انتخابات اپریل، مئی میں متوقع ہیں.
بھارتی سیاست کے اسکالر اورنئی دہلی میں قائم سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئیر فیلو گلس ورنیرس کہتے ہیں کہ اپوزیشن ایک مشترکہ مقصد تلاش کرنے اور ایسا نصب العین تیار کرنے میں ناکام ہو گئی جس سے مودی کو چیلنج کیا جا سکے‘دوسری جانب تہتر سالہ مودی نے ایک ایسے فارمولے میں مذہب کو سیاست کے ساتھ ملا دیا جو بھارت کی اکثریتی ہندو آبادی کی اسکے باوجود دلوں کی آواز بن گئی کہ اس سے ملک کے سیکیولر تشخص کو نقصان پہنچے‘ادھر کانگریس کے بڑے لیڈر راہول گاندھی نے جو بااثر گاندھی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ،حالیہ مہینوں میں پورے بھارت میں دو پیدل ریلیاں کی ہیں اور بڑے ہجوموں نے انکی پذیرائی کی ہے لیکن ماہرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ ہجوم ووٹ میں بدل جائیں گے.
سیاسی ماہرین سوال اٹھاتے ہیں کہ اپوزیشن، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور اقتصادی عدم اطمینان کو مسائل بنانے میں کیوں ناکام رہی جس سے نوے کروڑ ووٹر ان کی جانب مائل ہو سکتے تھے ہر چند کہ بھارت کی معیشت پھیل رہی ہے لیکن اسکی بڑی اور نوجوان ورک فورس میں بے روزگاری ، مودی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بن رہی ہے اس سب کے باوجود اگر اقتصادی عدم اطمینان پر حکمراں پارٹی کے خلاف کوئی مقبول شورش نہیں ہوتی، تو مودی کے لئے آرام سے تیسری مدت جیتنے میں کوئی مشکل نظر نہیں آتی.