کینڈین حکام نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل حماس تنازع کے تناظرمیں انتہا پسند کینیڈا میں مسلمانوں اور یہودیوں کی املاک‘مساجد اور مسلمانوں خصوصا عرب و فلسطینی وضع قطع رکھنے والوں پر حملے ہوسکتے ہیں انسداددہشت گردی کے لیے کینیڈا کی اسٹریٹجک انٹیلی جنس کے بریف میں تجزیہ کاروں نے ملک میں بڑے پیمانے پر تشدد پھیلنے کے بارے میں خبردار کیا ہے.
انٹی گریٹڈ ٹیررسٹ اسسمنٹ سینٹرنے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ احتجاجی مظاہروں، ثقافتی مراکز، سفارت خانوں اور دیگر مقامات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سفید فام انتہاپرستوں کی جانب سے آسان اہداف جیسا کہ مساجد‘رہائش گاہیں‘کاروباری مراکزاور افراد پر حملے کیئے جاسکتے ہیں کینڈین نشریاتی ادارے ”گلوبل نیوز“کے مطابق انٹیلی جنس بریف میں بتایا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر انتہاپسندوں کو گروپوں اور انفرادی حیثیت میں متحرک کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ رمضان میں ہونے والے اجتماعات میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے لیے حملہ کریں ”آئی ٹی اے سی“ وفاقی حکومت کے تحت ادارہ ہے جو سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے اراکین پر مشتمل ہے اور جو کینیڈا کو لاحق خطرات کا جائزہ لیتا ہے‘دسمبر 2023 میں، اوٹاوا میں پولیس نے ایک نوجوان کو گرفتار کیا جس پر یہودی برادری کے خلاف دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا ہے.
15 فروری کو دائر کیے گئے اضافی الزامات میں ملزم پر، جس کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ نابالغ ہے، ایک دہشت گرد گروپ کی ہدایت پر قتل کی سازش کا الزام لگایا ‘ملزم پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر دہشت گردی کی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کرنے کے لیے نفرت انگیز مواد اور پروپیگنڈا کو فروغ دینے میں ملوث رہا ہے. ایک دوسرے نوجوان پر بھی دہشت گرد گروہ کے لیے قتل کی سازش، دہشت گردی کی سرگرمیوں میں سہولت کاری اور دہشت گردی کے مقاصد کے لیے ممنوعہ آتشیں اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا تھا‘اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت جاری ہونے والی دھمکی آمیز رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے، انٹیلی جنس اہلکار ایسے واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں جو بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں‘ایک بریفنگ میں کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں کینیڈا میں مسلمان اور یہودی کمیونٹی پر تشدد کے بڑھتے ہوئے امکانات کا جائزہ لیا گیا‘رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حماس کے حملے سے پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم بڑھ رہے تھے اور 2015 سے 182 فیصد بڑھ کر 2022 میں 500 سے زیادہ ہو گئے.
کینیڈین سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس کے ایک سابق افسر اینڈریو کرش نے کہا کہ تشویشناک ہے کہ جو بیان بازی ہم دیکھ رہے ہیں اس کی وجہ سے کسی کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی ترغیب مل سکتی ہے‘جب کہ تنازعہ سے متعلق پرامن مظاہرے شروع ہوئے ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں خدشے کا اظہار کیا تھا تھا کہ تنازعہ میں شدت آنے کے ساتھ نسل پرست پرتشدد کاروائیاں کرسکتے ہیں ‘کینیڈا میں مسلمان کمیونٹی کی جانب سے غزہ کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کیا گیا رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ نسل پرستوں کی جانب سے مساجد، اسلامی کمیونٹی سینٹرز، طالب علموں، فلسطینی قونصل خانے، لابنگ گروپس اور فلسطینیوں سے وابستہ کاروباری اداروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے.
مرکز برائے اسرائیل اور یہودی امور کے قومی سلامتی کے ڈائریکٹر گیری المینڈریڈس نے کہا کہ حکومت کو ممکنہ خطرات کے بارے میں معلومات کو زیادہ تیزی سے عوامی طور پر جاری کرنا چاہیے‘انہوں نے کہا کہ میرا ابتدائی ردعمل یہ ہے کہ اسے بروقت جاری نہیں کیا گیا اس قسم کی رپورٹیں 7 اکتوبر کے واقعات کے ایک ماہ بعد تقریباً فوراً ہی یورپ میں جاری کی گئی تھیں گزشتہ موسم خزاں میں، وفاقی حکومت نے مسلم کمیونٹی سینٹرز اور عبادت گاہوں پر حفاظتی آلات نصب کرنے کے لیے 10 ملین ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا.