یورپی یونین :رکن ممالک کے کسانوں کا یوکرین کے خلاف احتجاج‘گرین ڈیل مسترد یونین کی پابندیوں سے ان کے فام بے آباد ہوجائیں گے اور صدیوں سے زراعت کے شعبے سے وابستہ کسانوں کا روزگار ختم ہوکررہ جائے گا. یورپی کسانوں کے ردعمل

یورپی یونین کے گرین ڈیل کیمیکلز کے استعمال اور گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج پر پابندیاں لگانے کے منصوبے کے خلاف مختلف یورپی ممالک کے کسانوں نے احتجاجی مہم تیزکردی ہے‘یونین کی جانب سے پابندیوں سے لائیواسٹاک اور زرعی شعبہ شدید متاثر ہورہا ہے کیونکہ پابندیوں کی سفارشات میں لائیواسٹاک کو گرین ہاﺅس گیسوں کے پھیلاﺅ کا ذمہ دار قراردیا گیا ہے اسی طرح زراعت میں استعمال ہونے والی مشنری ‘آلات‘کھادوں‘زرعی ادویات کو ماحول کے لیے خطرہ قراردیا گیا ہے.

یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں سے یورپی ممالک کے کسان شدید ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یونین کی پابندیوں سے ان کے فام بے آباد ہوجائیں گے اور صدیوں سے زراعت کے شعبے سے وابستہ کسانوں کا روزگار ختم ہوکررہ جائے گا اس لیے وہ یونین کی پابندیاں ماننے کو تیار نہیں. واضح رہے کہ امریکہ بھی ایسی پالیسی پر غور کررہا ہے جس سے ملک میں مویشیوں کے فام ختم ہوجائیں گے امریکی حکام بھی مویشیوں کو گرین ہاﺅس گیسیں پیدا کرنے کا ذمہ دار قراردے رہے ہیں اسی طرح ذاتی استعمال کے لیے سبزیاں اور پھلوں کے چھوٹے باغات کے خلاف بھی ایک پالیسی پر کام کیا جارہا ہے جس کے نفاذکے بعد شہری ذاتی استعمال کے لیے زرعی باغیچوں میں کاشت نہیں کرسکیں گے یہ اقدام ”فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اتھارٹی“ کے قوانین کے تحت کیئے جائیں گے ایف ڈی اے امریکا میں زرعی مصنوعات اور کھانے پینے کی دیگر اشیاءکو ریگولیٹ کرتا ہے ایف ڈی اے طے کرتا ہے کہ فصل یا گوشت صحت کے نقصان دہ ہے اس کے لیے ایف ڈی اے کے سخت قوانین پہلے ہی امریکا میں لاگو ہیں .

یورپی یونین کی پابندیوں کے خلاف پولینڈ کے کسانوں نے یوکرین کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں کو بند کر دیا ہے اور یوکرینی زرعی مصنوعات اور ٹائر جلائے کسانوں نے یوکرائنی کھانے کی اشیاءکی درآمد اور یورپی یونین کی ماحولیاتی پالیسیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کو تیز کر دیا ہے. اسپین سے اٹلی اور بیلجیئم تک کسان سراپا احتجاج ہیں کسانوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے گرین ڈیل کیمیکلز کے استعمال اور گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج پر پابندیاں لگانے کے منصوبے کے نتیجے میں پیداوار اور آمدنی میں کمی واقع ہو گی.

کسانوں کا کہنا ہے کہ ہمارا احتجاج ان ممالک کے خلاف بھی ہے جو یورپی یونین کے رکن نہیں مگر وہ زرعی پیدوار یورپی یونین کے ممالک کو سپلائی کرتے ہیں جبکہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے کسانوں کے آمدن میں کمی ہورہی ہے کسانوں کا کہنا ہے کہ یوکرین ان ممالک میں سے ہے جو یونین کا رکن نہیں مگر زرعی مصنوعات کا ایک بڑاپروڈیوسر ہونے کی وجہ سے وہ یونین کے ممالک کو سب سے زیادہ زرعی مصنوعات سپلائی کرتا ہے جس کی وجہ سے یونین کے رکن ممالک میں زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے.

پولینڈ کے کسان ٹریکٹر پر سوار ہوکر سرحدی شہروں گڈانسک، کراکو سمیت پولینڈ اور یوکرین کے درمیان قائم دیگر سرحدی گزرگاہوں پر احتجاج کررہے ہیں . ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے احتجاج کو مزید تیزکیا جائے گا ”سکائی نیوز“کے مطابق شاہراہوں کے داخلی راستوں اور یوکرین کی سرحد تک تقریباً 100 سڑکوں کو بند کر رکھا ہے کسان چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک کی حکومت پولینڈ کو گرین ڈیل سے نکال لے اور یوکرین سے زرعی درآمدات کو روک دے.

کسنوں کا کہنا ہے کہ پولش حکومت اپنے کسانوں سے زیادہ یوکرین کی برآمدات بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے جبکہ ایسی پالیسی کسانوں کو برباد کر دیتی ہے پولینڈ کے سرحدی شہر میڈیکا میں بھی کسانوں نے یوکرائنی اناج کو ضائع کیاجس پر پولینڈ میں یوکرین کے سفیر نے شدید تنقید کی اور ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ہم میڈیکا میں مظاہرین کی طرف سے یوکرین کے اناج ضائع کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں یوکرینی سفیر ویسل زواریچ نے لکھا کہ پولیس کو فیصلہ کن ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے اور قانون توڑنے والوں کو سزا دینی چاہیے یہ روسی جارحیت کے دوران اپنے اور دوسرے لوگوں کے لیے یوکرین کے کسانوں کی توہین کے مترادف ہے سفیر نے لکھا کہ یہ مظاہرے یوکرین اور اس کی مغربی سرحد کے پار پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا رہے ہیں جو روس کے حملے سے لڑنے کی اس کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن انہیں اپنے کسانوں کے دباﺅ کا سامنا ہے.

ادھر پولش کسانوں کا کہنا ہے کہ یوکرائنی اناج اور دیگر اشیائے خوردونوش کی درآمدات ان کے کاروبار کو نقصان پہنچا رہی ہیں جس سے مارکیٹ میں قیمتیں نیچے آ رہی ہیں جبکہ مقامی کسانوں کے لیے اپنی لاگت پورا کرنا مشکل ہورہا ہے. جانوروں اور اناج کا فارم چلانے والے ٹوماس گولک نے مقامی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ میں یہاں پر یورپی یونین کی جانب سے گرین ڈیل اور سب سے بڑھ کر یوکرائنی خوراک کے بہاﺅ کو روکنے کے لیے یونین کی پابندیوں کے خلاف مظاہرے میں شریک ہوں انہوں نے کہا کہ اس سال گندم پچھلے سال کے مقابلے آدھی قیمت پر فروخت ہو رہی ہے.

یاد رہے کہ 27 ممالک پرمشتمل یورپی یونین نے گزشتہ ماہ ان پابندیوں میں نرمی کی تھی جس کے تحت کسانوں کو اپنی زمین کا کچھ حصہ کھیتی میں رکھ سکتے ہیں رواں ماہ ماہ مظاہروں کے دباﺅ میں اس استثنیٰ کو بڑھا یا گیا ہے 2022 کے روسی حملے کے بعد بحیرہ اسود سے گزرنے والے بڑے تجارتی راستوں کو پیچیدہ بنانے کے بعد یورپی یونین کے رکن پولینڈ میں سڑکیں یوکرین، خاص طور پر اس کے زرعی شعبے کے لیے ایک برآمدی لائف لائن رہی ہیں.

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پولش کسانوں کے احتجاج پر کہا کہ ان کے اقدامات سے”یکجہتی کے خاتمے“کا اشارہ ملتا ہے زیلنسکی نے کہا کہ کوپیانسک روسی سرحد کے قریب ہے جہاں دشمن کے توپ خانے بند نہیں ہوتے ایسی صورتحال میں پولینڈ کے ساتھ سرحد سے آنے والی خبریں افسوسناک ہیں صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین اپنے اناج کا صرف 5 فیصد پولینڈ کی سرحد کے ذریعے برآمد کرتا ہے یہ احتجاج اناج نہیں بلکہ سیاست سے متعلق ہیں.

انہوں نے کہا کہ مظاہروں کے جواب میں یوکرین کے ٹرک ڈرائیوروں نے پولینڈ کے ساتھ تین کراسنگ پوائنٹس کے قریب ایک ریلی شروع کی ہے انہوں نے یوکرین کی ناکہ بندی کو یورپی اقدار کے ساتھ غداری قراردیا ہے جبکہ یورپی یونین کے کسانوں نے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کریں گے اور ایک بڑی احتجاجی ریلی یونین کے تمام ممالک سے ہوکر برسلزپہنچے گی جہاں وہ یونین کے ہیڈکواٹرازمیں احتجاجی اعلامیے پیش کریں گے.

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں