اسرائیل نے رمضان المبارک کے دوران فلسطینیوں کے قتل عام کا ایک نیا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے رفحہ پر حملے کا منصوبہ افشا کردیا۔
اسرائیلی جریدے وائے نیٹ نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کہتے ہیں کہ چھ سے آٹھ ہفتے میں جنگ مکمل ہو جائے گی، اسرائیلی حکومت چاہتی ہے لڑائی رمضان کے شروع ہونے سے پہلے ختم کرلی جائے۔ اسرائیلی فون نے رفح کے علاقے میں حماس کے مکمل خاتمے کی تیاریاں کرلی ہیں۔
اس دوران نچلی سطح کے فضائی حملوں کے علاوہ ممکنہ زمینی کارروائیوں کے لیے اسپیشل فورسز بھی استعمال کی جائیں گی۔
اسرائیلی وزیراعظم نے حملے کا اعلان گزشتہ ہفتے کیا تھا۔
برازیل کے صدر نے غزہ میں حماس کو ختم کرنے کے نام پر جاری اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کو ختم کرنے کے ہٹلر کے اقدامات سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔
برازیلین صدر کے ریمارکس پر اسرائیل نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنا سفیر واپس بلالیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ برازیلین صدر کا بیان انتہائی شرمناک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برازیلین صدر نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی ہے اور ان کا بیان دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے ذہنی کوفت اور روحانی تکلیف کا باعث بنا ہے۔
لوئی اناشیو لیولا ڈا سلوا نے اتوار کو ایتھویپا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں افریقی اتحاد کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے موقع پر کہا کہ غزہ میں سپاہی سپاہیوں سے نہیں ٹکرا رہے بلکہ ایک طرف جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اعلیٰ تربیت یافتہ فوج ہے اور دوسری طرف خواتین اور بچے ہیں۔
ایسا تاریخ میں اگر پہلے کبھی ہوا ہے تو بس جرمن نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر کے دور میں۔ بعض معاملات میں اسرائیلی قیادت نے ہٹلر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ غزہ میں جنگ نہیں ہو رہی، صرف قتلِ عام ہو رہا ہے۔
برازیل کے صدر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز کی کارروائیاں ناقابلِ برداشت ہیں۔ عالمی برادری کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ روز کہا تھا کہ دنیا چاہے کچھ بھی کرلے، اسرائیل کسی دباؤ کو قبول کیے بغیر غزہ میں اپنی کاررائیاں جاری رکھے گا۔
ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رفح بارڈر کے علاقے میں بھی فوجی آپریشن رمضان سے قبل ہر صورت مکمل کیا جائے گا۔
غزہ پر جاری بمباری سے جان بچاکر نکلنے والے رفح بارڈر پر جمع ہیں مگر مصری حکومت انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔