سپریم کورٹ آف پاکستان نے کمشنر راولپنڈی کے الزامات کے حوالے سے ازخود نوٹس نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمشنر راولپنڈی کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ہم نے تو الیکشن نہ کرانے کی کوششیں ناکام بنائیں، کمشنر صاحب کے پاس ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔
کمشنرراولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے عام انتخابات میں دھاندلی سے متعلق اعترافی بیان دیتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا ہے۔
اپنے اعترافی بیان میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کو دھاندلی میں ملوث قرار دیا اور کہا کہ فوج نے الیکشن بالکل ٹھیک کروائے۔
اس بیان کے کچھ دیر بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا۔
اپنی دھماکہ خیز پریس کانفرنس میں لیاقت علی چٹھہ نے یہ کہتے ہوئے استعفادیا کہ انہوں نے راولپنڈی ڈویژن میں کم از کم 13 ایم این اے امیدواروں کے نتائج آراوز سے تبدیل کروائے۔
ذرائع کے مطابق ان الزامات کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت چیف جسٹس چیمبر میں اجلاس بلایا گیا۔
اجلاس میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی شریک، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ بھی شریک ہوئے۔
’خودکشی کا سوچنے والے کل تک سرکاری میٹنگز اٹینڈ کر رہے تھے‘
اجلاس میں کمشنر راولپنڈی کے الزامات کا جائزہ لیا گیا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے کمشنر راولپنڈی کے الزامات پر ازخود نوٹس نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
ذرائع کے مطابق ازخود نوٹس نہ لینے کا فیصلہ چیف جسٹس نے دیگر ججز کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا۔
ذرائع کے مطابق انتخابات سے متعلق سماعت 19 فروری کو پہلے ہی مقرر ہے، پہلے سے مقررکردہ مقدمہ میں ہی کمشنر راولپنڈی کے پہلو کا جائزہ لیا جائے گا۔
الزامات مسترد
چیف جسٹس قاضی فائز عسیٰ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمشنر راولپنڈی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ الزامات میں کوئی صداقت نہیں، کل مجھ پر چوری اور قتل کا الزام لگا دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی ! pic.twitter.com/wZc9jB7ivy
— Hassan Ayub Khan (@HassanAyub82) February 17, 2024
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ادارے ہیں، اداروں کو مزید تباہ نہ کریں، میں ایک ادارے کا سربراہ ہوں، چیف جسٹس بھی ہوں، تو اگر آپ ایسے ہی الزامات لگا دیں بے بنیا، نہ اس میں صداقت ہو نہ ذرا سی بھی سچائی ہو نہ آپ ثبوت پیش کریں، کل آپ کچھ بھی الزام لگا دیں بے بنیاد، مجھ پر چوری کا الزام لگا دیں، قتل کا الزام لگا دیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الزام لگانا آپ کا حق ہے، لیکن ساتھ ثبوت بھی دیں، الزامات تو کوئی بھی کچھ بھی لگا سکتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمشنر راولپنڈی سے پوچھیں میرے خلاف کوئی ثبوت ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تو آئینی اداروں کے درمیان تصفیہ کروایا، 12 دن میں تاریخ آگئی تھی، الیکشن کروانے میں میرا کردار ضرور تھا، الیکشن کروانے کا حکم میں نے نہیں دیا تھا، کئی کوششیں ہوئی تھیں کہ الیکشن نہ ہوں، ہم نے ان کو بھی رکوایا۔
الزامات پر توہین عدالت لگانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں فطری طور پر کنٹیمپٹ (توہین) کے خلاف ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ یہ ذات کی بات نہیں ادارے کی بات ہے، اگر آپ ادارے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کو آپ نقصان پہنچا رہے ہیں، اگر آپ پاکستابن کے دشمن ہیں تو اداروں کو ضرور تباہ کریں گے’۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پٹیشن آتی رہتی ہے اس کا ہم فیصلہ کرتے رہتے ہیں، چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کا الیکشن سے کوٸی تعلق نہیں، انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔